شہید نثار کی ولولہ انگیز شخصیت
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
لہو وطن کے شہیدوں کا رنگ لایا ہے
اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی
شہادت کی ولولہ انگیزی کو کتاب ”فلسفہ شہادت“ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ شہید کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ قوم میں ہمت اور ولولہ پیدا کرتا ہے. جن قوموں میں جوش بالخصوص جذبے کی روح مر جاتی ہے، ”شہید “ اُن میں دلاوری، صبر، ہمت اور جوش پیدا کرتا ہے.
ملک و قوم کے نصیب میں کچھ دن ایسے لکھے جاتے ہیں، جو قربانیوں کے متقاضی ہوتے ہیں، لیکن فتح کا بگل تب بجتا ہے جب نظریے کی جیت ہو.سروں پر کفن باندھ کر سرفروشانِ وطن رزم گاہ حق و باطل کا رُخ کرتے، کچھ شہادت سے سرفراز ہوئے اور کچھ غازی بن کر میدانِ عمل میں سرخرو رہے ہیں.
آج جب صبح نیند سے اٹھنے کے بعد حسبِ معمول موبائل پکڑا اور نیوز دیکھتا رہا، تو ایک کربناک لمحہ اس وقت محسوس ہوا کہ ایک نیوز نظروں سے گذری کہ کل شب مغربی بلوچستان کے شھر چاھبار میں ایک بلوچ مسلح دستے کا کمانڈر نثار بلوچ عرف ھیربیار اپنے ساتھی سنگت ماجد بلوچ کے ساتھ شہید کئے گئے ہیں۔
شہید نثار بلوچ ایک مخلص ایماندار اور سچے ساتھی تھے، دیکھنے میں وہ انتہائی بازوق اور مزاحیہ مزاج کے انسان تھے۔ میری ان سے واقفیت لگ بھگ 2009 کے اواخر میں ہوا جب میں بی آر ایس او کا مرکزی رکن تھا اور وہ بی آر پی کے کارکن تھے. ہر وقت حال احوال سیاسی پروگراموں میں اکھٹا رہنا روز مرہ مصروفیات تھیں۔ شہدائے مرگاپ کی شہادت کے بعد اور شہید ثناء سنگت کی مسخ شدہ لاش جب مرگاپ میں پھینکی گئی تو اس کے بعد گویا حالات تبدیل ہوئے، اسی اثناء میں پسِ زنداں رہا جب ایک سال دو مہینے بعد بازیابی نصیب ہوئی تو حالات یکسر تبدیل ہوچکے تھے۔ سیاسی دوستوں کے گرد گھیرا اتنا تنگ ہوچکا تھا کہ غیر مہذب ریاست کے جبر و استبداد کو روکنے کیلئے کئی سیاسی دوست روپوش ہوئے اور مسلح مزاحمت کو اپنا سنگر بنا کر جدوجہد میں مصروف عمل ہوگئے۔ ان میں شہید سنگت نثار بلوچ بھی شامل تھے۔ جب وہ اس کاروان میں شامل ہوئے تب ہمارا ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہوچکا تھا لیکن ایک دوسرے کے ساتھ نظریاتی رشتے کی وجہ سے بلا واسطہ رابطے رہتا تھا۔
کچھ مدت کی بات ہے کہ ایک دوست کی توسط سےمجھے شہید کا پیغام ملا، جب میں نے اس دوست سے کہا کہ انہیں کہیں مزید رابطے کے لئے مجھ سے بات کرلیں لیکن بدقسمتی سے آخری ایام میں ان سے رابطہ بھی نا ہو پایا اور آج ان کی شہادت کی خبر سننے کو ملی! شہید نثار بلوچ ایک باعلم اور پختہ نظریاتی دوست تھے، ان کی ہمیشہ کوشش یہی تھی کہ پائی جانے والی جو بھی پیچیدہ معاملات قومی تحریک کے اندر وجود رکھتی ہیں انہیں اداروں کے اندر رہ کر حل کرنا چاہیئے کیونکہ اس سے ابہام اور تقسیم کا عمل رک جاتا ہے. وہ اپنے عمل سے وفادار تھے اور آخری سانس تک ان کی وفاداری کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ساتھی ماجد بلوچ کے ساتھ جام شہادت نوش کیا پر جھکے نہیں بکے نہیں.
وہ راہِ حق کے شہید ہیں اور راہِ حق کے شہدا کی وفا تھی اور ہے، جس کی بدولت آج بلوچ قومی تحریک اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے اور کوئی شک نہیں کہ وہ وفا ہی تھی اور ہے کہ ماؤں نے اپنے گھروں کے چراغ دے کر وطن سے محبت کے چراغ کو لو بخشی.
سوئی ہوئی قوم کو زندہ کرنے والے اور اُن کے لہو کو گرمانے والے شہدائے آزادی اپنے حصّے کی شمع جلاگئے، اُن کے بچھڑ جانے پر ہم افسردہ ضرور ہیں لیکن رنجیدہ نہیں کیوں کہ انہی شہدا کا لہو فتح کا استعارہ ہے. راہِ آزادی کے شہیدوں کا لہو درس دے رہا ہے کہ ہم اپنے سنہرے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے آگے بڑھیں اور یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اندرونی و بیرونی دشمنوں کا مقابلہ کریں اور فتح حاصل کرتے رہیں. فتح دراصل یہ نہیں کہ ظاہری اشیاء کا حصول ممکن ہو بلکہ کا اس مفہوم نظریے کی فتح ہے. بہرکیف مادرِ وطن کی عزت و عصمت کے لیئے جن شعلوں کو جنگِ آزادی کے شہیدوں نے اپنے لہو سے بجھانے کی کوشش کی انہی کی بدولت آج تحریک آزادی بلوچستان کامیابی کی جانب گامزن ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان قربانیوں کا لحاظ رکھیں.
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔