ہائے شیرکوہ پروش تو بھی ساتھ چھوڑ گیا
ترجمہ۔ سمیر جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
محترم کالم نگار اسلام علیکم
امید ہے میرا درد بھرا خط کالم کی شکل میں شائع کرواکر میرے زخموں پر مرہم کا کام کروگے کیونکہ آج ہمارا سات سالہ رفیق ہم سے روٹھ کر اپنے حقیقی دوستوں، بلوچ شہیدوں کے پاس چلے گئے ہیں۔ ہاں اگر شہید خود اجازت دیں تو میں اس کے بارے میں کچھ لکھ کر اپنے ارمان کم کر سکوں۔ میں جانتاہوں یہاں رکاوٹوں کے انبار کا سامنا کرنا پڑے گا، لیکن شہید کوہ پروش شیروں کے شیر تو بتا آپ کے بارے کہاں سے لکھناشروع کروں؟ تیرے معصومیت پر، سادگی پر، ایماندارانہ جہد مسلسل پر؟ کبھی بھی سات سال کے دوران نئے لباس کے فرمائش اپنے زبانی نہ کرنے پر، کیمپ سے چھٹی پر جیب خالی جانے پر، بے سواری سینکڑوں میل پیدل چلنے کے باوجود اف تک نہ کرنے پر، ہر سمت ناپاک آرمی کی لاتعداد چوکیاں ہونے باوجود اپنا جان جوکھم میں ڈال کر ننگے پاؤں کامریڈوں کیلئے راشن لے آنے پر، کیمپ کا گارڈ ہر وقت سنبھالنے اور نگرانی کرنے پر، کیمپ میں بلا ناغہ اشیاء خوردنوش کی نگرانی پر، سردی یا گرمی کا پرواہ نہ کرتے ہوئے روزانہ ساتھیوں کو ایکسرسائز کیلئے لے جانے پر، دشمن کے ساتھ دوبدو لڑائی اور انھیں جہنم واصل کرنے پر، مخبروں کو اپنے بچوں کی طرح سنبھالنے پر، یا پروپیگنڈہ کرنے والے ان نادان دوستوں کو یہ سمجھانے پر کہ اگر اچھی خوراک آئے یا نہ آ ئے کمان ہم سب کے ساتھ اپنے بھائی اور ہمدردرفیق جیسا برتاو کرکے نہ صرف خود کھائیں گے بلکہ ہمیں بھی وہی کھلائیں گے اس مثبت سوچ پر، یا دل کے تاروں کوہلانے والے پر خلوص اس جملہ پر کہ ’’ واجہ اگر ٹچ موبائل بگند دست کپت گڑا منا بے حال مکنے برے چاریں چوں لنکک ء ایئر کننگا کار کنت ‘‘ یقیناً یہ جملہ آپ نے اس وقت مزاق ہی مزاق میں کہا ہوگا، مگر آج نہیں قیامت تک تیرا یہ جملہ مجھے نہیں بھولے گا کیوں کہ میں نے تیرے اس معصوم اور چھوٹی سی چھوٹی خواہش پر تیرے زندگی میں عمل نہ کرسکا، نہ جانے کیوں اس کیوں کا جواب ہر لمحہ تیرا ہی یاد دلاکر ستاتا رہے گا۔
کوہ پروش میں اپنے آپ کو خوش قسمت جان کر فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ تیرے ساتھ سات سالہ ہمراہداری میں گذارنے پر وہ سال نہیں سات پل محسوس ہو رہے ہیں اور معلوم ہی نہ پڑا کہ یہ دن کیسے جلدی الوداع کہہ گئے۔ لیکن آج ایک دن تیرے بغیر صدی محسوس ہونے لگا ہے، یہ جگہ ویران ہیں۔ ماناکہ موت برحق ہے مگر انہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ تجھے اتنی جلدی لے چلتے۔ میرے کامریڈ ساتھی ہمیں یہاں چھوڑ کر جانے سے پہلے ضرور سوچتے کہ اتنی ذمہ داریوں کی لمبی لسٹ کس کے حوالے کرکے الوداع کہا؟ تمہیں یاد ہے جب دوہزار بارہ میں مرکزی کیمپ آئے تو ایک عام سادہ زندگی گذارنے والے چرواہے تھے، مگر دن رات کی محنت سے دیکھتے ہی دیکھتے تو اٹھارہ سال سے چھلانگ لگاکر ساٹھ پینسٹھ کے عمر کے لیجنڈ دماغ کے مالک کیسے بن بیٹھے۔ ناز ہے تم جیسے قومی سپوت پر کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک ذمہ دار کامریڈ سمیت ایک نظریہ کی امارت بھی تعمیر کرنے میں کامیاب ہوئے، جو بہت کم خوش نصیبوں کے حصے آتی ہے۔
کسی کے وہم وگمان میں نہ تھا کہ تو ایک چرواہے کی زندگی گذارنے والا عام سادہ بلوچ گھنٹوں آزادی جہد کے نشیب وفراز، کیمپ کے راہ بند، پارٹی ڈسپلن، آزاد خیالی، تنظیم، راز داری وغیرہ پر گھنٹوں مقرر کی طرح نہ صرف تقیریر کر سکتے تھے بلکہ دوستوں کے پوچھے گئے سوالات کے جوابات اور ان کیلئے مثالیں بھی دیکر وضاحت کر سکتے تھے۔ حیران ہوں کیا لکھوں تیرے بارے ایک طرف تجھ پر ناز ہے تو دوسری طرف تیرے جلدی بچھڑنے کا غم۔ بس اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم بھی آپ کے نقش قدم پر چل کر بلوچ سیاست میں خود غرضی،لالچ ، حسد،اور نام نہاد کمانڈر بننے کے الجھنوں سے آزاد پنچھی بنیں تیری طرح۔
تیری شہادت ہمارے جیسے دوسرے سرمچاروں کیلئے ایک گَرو ہے، وہاں تیرے لغور اور ڈرپوک داماد قمبر عرف درویش کیلئے ایک طمانچہ کہ وہ دوسو کلو وزن رکھنے کے باوجود بلوچ شہداکے خون سے غداری کرکے دشمن پنجابی کے جوتے اپنے سرپر رکھ کر دم دباکر بھاگ گیا، مگر تونے اپنے لاغر بدن کے ساتھ اس کی طرف سے ہونے والے سختیوں اور دھمکیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گواش آواران کو پھر اپنے خون سے ہرابھرا کرکے ان ماؤں کی چادر جنہیں ڈرپوک قمبر نے چھینا تھا انھیں واپس ان سے چھین کر ماؤں کے ساتھ صرف وفا نہیں نبھایا بلکہ پوری بلوچ قوم کے شان کو دوبالا کر دیا۔ میرے پیارے کامریڈ تجھے لاکھوں بار لال سلام۔
فقط آپ کا کامریڈ ساتھی شاہ میر بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔