بدیہی الانتاج
برزکوہی
دی بلوچستان پوسٹ
وسیع علم کی سرحد پر جہالت نظر آتا ہے، پھر وہاں سے علم و تحقیق اور تجسس کی اضطراب و تنقیدی سوچ کی کیفیت شروع ہوتی ہے۔ یہاں تنقید سے مراد منطق، معقولیت پسندی، اشیاء، مسائل، واقعات اور معمالات کی مابعدالطبیعاتی طرز جان دیدہ ممکن ہوسکتا ہے۔ نہیں تو سب کچھ بدیہی علم نہ کہ تجربی علم ہوسکتا ہے۔ فلسفہ وجودیت کے بانی مفکر و فلسفی جان پال سارتر کے نزدیک “جو چیز جس طرح دکھائی دیتی، جو اس کا وجود ہے اصل میں وہ اس کا اصل حقیقت اور وجود نہیں ہوتا۔” یا پھر علم فلسفہ کی روشنی میں سچ مطلق نہیں ہے کیونکہ علم اور جہالت بھی حتمی نہیں ہوسکتے اور ہر معمولی اور غیر معمولی مسئلے معاملے اور واقعے میں ایک اور مسئلہ، معاملہ اور واقعہ پیوست ہوتا ہے۔ پھر ہر ایک مسئلے، معاملے اور واقعے میں کئی اور مسائل معملات اور واقعات کی پیوستگی خارج ازمکان نہیں ہوتا، پھر ان کی تہہ گہرائی اور آخری حدتک پہنچ جانا اور نتیجہ اخذ کرنا علم فلسفہ ہے، نہیں تو پھر حقیقت کا دعویٰ اور فیصلہ صرف اور صرف ہوا میں تیر چلانے کی مترادف ہوگا۔ توذرا جائزہ لیا جائے ہم کہاں پر کھڑے ہیں؟
فلسفی امانوئیل کانٹ کے مطابق عقل انسانی کی خیال آراٰئی کا عموماً یہی حشر ہوتا ہے کہ کوئی عمارت تو فورا کھڑی ہوجاتی ہے مگر یہ تحقیقات اس کے بعد کی جاتی ہے کہ عمارت کی بنیاد مضبوطی سے رکھی گئی ہے یا نہیں؟ پھر اس قسم کے تاویلیں تلاش کی جاتی ہیں تاکہ ہمیں عمارت کے استحکام کا اطمینان دلایا جائے یا سرے سے اس خطرناک بعد از وقت تحقیقات ہی کو ٹال دیا جائے، جو چیز اس عمارت کی دوران میں ہمیں فکر و شبہ سے آزاد رکھتی ہے اور ظاہری استحکام سے ہمارے دل کو لبھاتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ہماری عقل کی جدوجہد کا ایک بڑا حصہ شاید سب سے بڑا حصہ، ان تصوارت کی تحلیل پر مشتمل ہے۔ جو ہم معروضات کے متعلق رکھتے ہیں، اس طرح ہم کو بہت سے معلومات حاصل ہوتے ہیں، جن میں صرف اس مفہوم کی توضیح اور تشریح ہوتی ہے جو(مبہم طور پر)ہمارے تصورات میں پہلے سے موجود ہے۔ گوکہ یہ معلومات معنوی حثیت سے ہمارے تصورات کو توسیع نہیں دیتے بلکہ صرف ان کی تحلیل کردیتے ہیں لیکن صوری حثیت سے نئے معلومات کے بارے میں سمجھے جاتے ہیں چونکہ اس عمل کے ذریعے سے واقعی بدیہی علم حاصل ہوتا ہے۔ اس لیئے عقل بغیر محسوس کیئے ہوئے اس بدیہی علم کے نام سے، بالکل دوسری قسم کی تصدیقات ہمارے سامنے پیش کردیتی ہے، جس میں ایک دیئے ہوئے تصور کے ساتھ، دوسرا نیا تصور بغیر تجربے کی مدد کے جوڑ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ یہ تصور اس کے پاس کہاں سے آیا، بلکہ ہمارے ذہن میں یہ سوال پیدا نہیں ہوا۔
بظاہر یہ ایک قدرتی بات ہے کہ جب انسان تجربے کے بنیاد کو چھوڑ چکا ہو، تو وہ یہ نہیں کریگا کہ ان معلومات سے، جن کے متعلق وہ نہیں جانتا کہ کہاں سے حاصل ہوئے ہیں اور ان اصولوں کے بھروسے پر جن کا ماخذ انہیں معلوم نہیں، پھر بھی فوراً ایک عمارت بناکر کھڑی کردے، بغیر اس کے کہ اس نے احتیاط کے ساتھ تحقیات کرکے اس کی ایک مضبوط بنیاد قائم کردی ہو بلکہ وہ ابتداء ہی سوال اٹھائے گا کہ آخر ہمارے ذہن کو یہ بد یہی معلومات کیوں کر حاصل ہوئی؟ ان کی حدود کیا ہیں؟ اور وہ کس حد تک مستند ہیں؟ اور کیا قدر و قیمت رکھتے ہیں؟ حقیقت میں اگر قدرت کے معنی معقول اور پسندیدہ کے لیئے کی جائیں تو اس سے زیادہ قدرتی بات اور کیا ہوسکتی ہے؟ لیکن اگر قدرتی سے مراد وہ طریقہ ہے جو عموماً اختیار کیا جاتا ہے تو پھر یہ بالکل قدرتی امر ہے۔
کیا ہر کامیابی کے پیچھے قدرتی عوامل کارفرما ہوتے ہیں؟ کیا ناکامی کی پیچھے بھی قدرتی عوامل ہوسکتے ہیں؟ کیا ہر غلط فیصلہ قدرتی ہوتا ہے یا پھر ہر صحیح فیصلہ بھی قدرتی ہوتا ہے؟
جب بھی جہاں بھی کامیابی یا ناکامی کی نوبت اور غلط اور صحیح فیصلوں کے محرکات اور راز کی تہہ تک پہنچانے میں لاعلمی اور تجربی علم سے محرومیت ہو تو قدرتی بن سکتے ہیں کیوں؟
کیونکہ جب احساس تحفظ، خود اعتمادی، قوت اردای، مستقل مزاجی، علم وشعور، ادراک اور جستجو کا فقدان ہو تو ہمیشہ انسان بے بسی، بے علمی، مجبوری اور لاچاری کے پیچ و تابوں میں دوسرے چیزوں یعنی قدرتی دیوتاوں عقائد اور کلیساوں پر انحصار کرنے لگتا ہے (قطع نظر میں یہ دعویٰ نہیں کرتا اور نہ ہی میں مکمل اعتماد کے ساتھ ایسی قوتوں کی تردید کررہا ہوں) ویسے ہمیشہ رہنمائی کا فقدان ہو تو لامحالہ انسان رجحانات، روایات اور عقائد کی تقلید کرتا ہے اور جو کچھ کرنے کی خواہش رکھے یا کر بھی لے تو قوت ادراک اور جستجو کا فقدان ہو تو ہمارے ساتھ کچھ نہیں ہوتا۔ جب کچھ نہیں ہوتا تو خارجی حالات اور داخلی میلانات پہ ردعمل میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
آج بدقسمتی سے ہمارے سماجیات اور سیاسیات میں کچھ ایسے لاحاصل اور بے فائدہ چیزیں وجود رکھتے ہیں، جن کو ہم اہمیت دیکر ان کو شاید قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن ترقی یافتہ اقوام و دنیا اور خاص کر منظم و متحرک تحریکات میں ایسے چیزوں پر تھوکنے کو بھی وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے۔
پھر ایسی چیزیں ہمیشہ تردد سفر میں الجھن، رکاوٹ اور گنجلک صورتحال کو جنم دیتے ہیں، جس کے پاداش میں آگے سفر جاری رکھنے اور ترقی کرنے کی تمام راہیں محدود اور کھٹن ہوتے ہیں۔
آج روزمرہ زندگی سے لیکر قبر تک اگر اشرف المخلوقات انسان سائنسی تجربات اور تخلیقات سے استفادہ حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنے رجعتی و فرسودہ خیالات میں مقید ہوکر ان کو توڑنے اور تبدیل کرنے کی جسارت نہیں کرتا، تو انسان آج بھی بغیر کپڑے کے غاروں اور جنگلوں میں ہوتا نہ کہ خلا ہ تک پہنچ جاتا۔ تو پھر آج بھی انسان نفسیاتی، اعصابی، جسمانی اور ذہنی امراض کا علاج کوڑوں، تشدد، مریض کو کمرے میں اکیلا بند کرنے اور علاقہ بدر کرنا ہوتا اور مریضوں کو تشدد کا نشانہ بناتے کہ یہ اس لیئے مرض میں مبتلا ہوچکا ہے کیونکہ یہ گناہ گار ہے، اس پر خدا اور دیوتاوں کا عذاب ہے، کوڑوں اور تشدد کے ذریعے اس کے گناہ ختم ہونگے اور پھر صحت یاب ہوگا، یہ علم سائنس اور اس کے اہم شاخ علم نفسیات اور علم فلسفہ ہے جو بقراط سے لیکر فرائیڈ تک پھیلی ہوئی ہے، جس کے بدولت آج بڑے بڑے ہسپتالوں اور آپریشن تھیٹروں تک انسان کو پہنچا دیا۔
اس وقت بھی جب ان ساننسی چیزوں کے بارے میں تخلیق و جستجو اور چرچا جن انسانوں نے شروع کیا، تو وہ شدید مخالفت اور نفرت کا شکار ہوگئے مگر وہ دباو اور ردعمل کے شکار نہیں ہوئے بلکہ کامیاب ہوگئے اور انسان جنگلوں و غاروں سے اوہام و آسیب اور عقائد سے نکل کر تبدیلی اور ترقی کے میدان میں قدم رکھنے میں کامیاب ہوئے۔
آج بلوچ قومی تحریک اور بلوچ جہدکاروں سے امیدیں اپنی جگہ لیکن قومی تحریک میں کچھ ایسے لاعلمی اور لاشعوری کی بنیاد پر کچھ ایسے چلتے پھرتے منتقل شدہ رویئے، رجحانات، اثرات اور خیالات موجود ہیں تو میرے خیال میں جب تک یہ موجود ہونگے اس وقت تک بے شک بلوچ قوم اور بلوچ نوجوان قربانی دیتے رہیں، دشمن پر حملہ بھی ہوتا رہیگا، دشمن بھی پریشان اور تکلیف میں مبتلا ہوگا، انفرادی حوالے سے تاریخ بھی رقم ہوگا، دنیا میں بلوچ قوم زیر بحث ہوگا لیکن ایک منظم و موثر اور عوامی تحریک کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔
مجھے بذات خود ہر چیز میں کیڑا نکالنے یعنی تنقید برائے تنقید، غیرسیاسی، روایتی کھسر پھسر، شکایت و شکوہ اور سطحی چیزوں پر بحث، گفتگو اور اہمیت دینے سے انتہائی نفرت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان چیزوں سے بھی انتہائی نفرت ہے جب میں وہ چیزیں دیکھ کر قوم اور قومی تحریک کے لیئے ناسور اور نقصان سمجھ کر اس بنیاد پر چپ کا روزہ رکھوں کہ میں متنازع ہونگا، ذاتی تعلقات خراب ہونگے، دراڑیں پڑینگیں، دوریاں جنم لینگے، یکجہتی نہیں ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ایسی روایتی سوچ، التماس اور احتجاج کا کچھ فائدہ نہیں، ان سارے امراض کا مکمل اور مستقل علاج نہیں بلکہ پین کلر ہیں، جس طرح ڈسپرین کی گولی وقتی سر درد کا علاج ضرور بن سکتا ہے لیکن سردرد کے وجوہات اور مستقل حل و علاج نہیں ہوگا۔ اگر ان رویوں، رجحانات، اثرات، مزاجوں اور سوچوں کے ساتھ ایک بار نہیں ہزار بار اتحاد و یکجہتی، سنگل پارٹی اور ایک قومی پارٹی بنائی جائے لیکن یہ ڈسپرین ضرور ہوگا لیکن مکمل و مستقل علاج ہر گز نہیں۔ یہ میری رائے ہے، قبول ہو یا نا ہو آج اس پر کوئی پشیمانی اور مسئلہ نہیں، کم از کم کل ضرور قابل قبول ہوگا، اس سوچ اداراک اور شعور کے ساتھ کچھ کہنا اپنے ضمیر اور حس کے فیصلے کو قومی فرض سمجھ کر اظہار کررہا ہوں اور کرتا رہوں گا۔
اپنی آنکھوں سے دیکھ کر کس طرح نوجوان آنکھوں اور دماغ پر سیاہ پٹی باندھ کر بطور ایندھن استعمال ہوکر یا کسی گہری کنویں میں گرنے جارہے ہیں، تو ان کو روکنا سوچ اور شعور کی بنیاد پر اپنی ذمہ داری سمجھنا، آج شاید غلط ہو ناقابل قبول ہو مگر کل ضرور قابل قبول اور لفظ بہ لفظ سچ ثابت ہوگا۔ تو سچائی کے لیئے ہر ردعمل خندہ پیشانی سے قبول کرنا کوئی جرم اور گناہ نہیں، جب گناہ اور جرم نہیں تو پھر جاری و ساری رہیگا اس وقت جب تردید اور مسترد کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل منطق اور علم پیش نہ ہو۔
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔