نام نہاد ترقی کے لبادے میں چین کے استحصالی منصوبے
ریاض بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
پاکستان کا چائنا کے ساتھ سی پیک معاہدہ 2006 کو ایک ایسے وقت میں طے پایا گیا، جس وقت بلوچ قومی آزادی کی جدید شورش اپنے ایک پرجوش دورانیے سے گذر رہا تھا یا یوں کہیئے کہ نواب اکبر خان بگٹی اور ساتھیوں کی شہادت سے بلوچ عوام میں ریاستِ پاکستان کے خلاف ایک انتہائی غم و غصہ پایا جاتا تھا. تقریباً اکثریتی رائے عامہ پاکستانی ریاست کے خلاف یا کچھ حد تک ریاستی اداروں کے خلاف تھا. ہاں البتہ جذباتی نعروں اور تقریریں کا دور گذرنے کے ساتھ ساتھ کچھ نام نہاد قوم پرست لیڈران، قبائلی اور نیم قبائلی سردار زادے اور انکے پیر و مرشد تو اس قدر ٹھنڈے اور بے ایمان ہو گئے کہ کچھ سالوں بعد اکبر خان کے قاتلوں کے شانہ بشانہ اسمبلیوں اور تقاریب میں براجمان ہو گئے.
بات سی پیک منصوبے پہ شروع ہوئی تھی تو شاید اس وقت پاکستان کو مجبوراً چائنا کے ساتھ یہ سودا طے کرنا پڑا، پاکستان کو ایک جنگ زدہ بلوچ خطے میں نام نہاد ترقی کے نام پر ایک ایسا ڈرامہ رچانا تھا جبکہ دراصل ترقی کے لبادے میں چھپی استحصالی سوچ کو دوام بخشنا تھا، جس سے ایک فیصدی پرو سٹیٹ آلہ کاروں کی خوب خاطر تواضع کرکے انکی توسط سے باقی بلوچ آبادی، زمین، ثقافت اور بودو باش کو نیست و نابود کرنا تھا. اور پاکستان اس پروجیکٹس کے بہانے بلوچ آزادی کی تحریک کو ہر طرح سے کاؤنٹر کرنا چاہتا تھا.
سی پیک کی سیکیورٹی کے بہانے بلوچ آبادیوں کو فوجی آپریشن سے مسمار کرنے، قتل و غارت گری کے علاوہ ریاست نے اپنے آلہ کاروں کی مدد بلوچ قوم کو غیر ترقی پسند ظاہر کرنے، بلوچ آزادی کے سیاسی و مزاحمتی جہد کاروں کو عام بلوچ دشمن قرار دینے کیلئے مختلف طرح کے پروپگنڈے مہم کا باقاعدہ آغاز کیا. سرفیس پہ قومی سیاست کمزور ہونے کی وجہ سے ریاست اور انکے حواری اپنے ان مکاریوں میں کافی حد کامیاب بھی ہو گئے. گوادر یا قرب و جوار میں کچھ لوگ اس وقتی نمود و نمائش کو پائیدار ترقی سمجھنے لگے.
بلوچی میں کے ایک شعر ہے کہ
“بسوچ لوگ ءَ کہ پُر خرید انت”
اپنے گھر کو جلا ڈالو کہ راکھ کی قیمت ہے والی بات تھی. گوادر کے باسی یا سی پیک روٹ پر آنے والی آبادیوں کو مجبوراً اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے، یا کچھ آبادیوں کو زبردستی بے گھر کر لیا گیا. گوادر میں روزمرہ زندگی کو عزاب بنانے کیلئے پانی کی قلت کا مصنوعی قحط پیدا کیا گیا جو تاحال جاری ہے تاکہ مقامی آبادی کو شہر بدر کیا جا سکے.
ریاست پاکستان اس دفعہ کے قومی شورش سے پچھلے شورشوں کی نسبت قدرے زیادہ پریشان ہوگیا تھا، کیونکہ ایک تو یہ ایک علاقے یا قبیلے تک محیط نہیں تھا دوسری اور اہم بات اس دفعہ جنگ کی قیادت پڑھے لکھے نظریاتی نواجون کر رہے تھے جن کو منانا، پہاڑوں سے اتارنا یا قومی نظریے سے پیچھے ہٹانا اتنا آسان دکھائی نہیں دے رہا تھا. پاکستان کو بلوچ قومی تحریک ختم کرنے کیلئے چائنا جیسے عالمی معاشی ترقی یافتہ ملک کی حمایت ملنے والی تھی، اور دوسری طرف چائنا پاکستان کو مجبور حالت میں دیکھ کر خطے میں اپنے پنجے گاڑھنے کو تو پہلے سے تیار بیٹھے تھے. پریشانی کی عالم میں شاید پاکستان یہ بات بھول گیا کہ چائنا اپنے ٹکّے کا حساب مانگتا ہے، دوسروں کو فائدہ کم مگر معاشی پریشانیاں زیادہ دیتا ہے. جیسا کہ چائنا سری لنکا میں پہلے یہ چال چکا تھا.
سی پیک کا منصوبہ AIIB “نئی شاہراہ ریشم” کا حصہ ہے جو 64 ممالک پر محیط ہے، اس منصوبے پر 890 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی ہے. چین کے ایکسپورٹ امپورٹ بنک اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے. 2015 میں اسی بنک نے 80ارب ڈالر کے قرضے دیے ہیں جبکہ ایشین ڈویلپمنٹ بنک نے 27.1 ڈالر کے قرضے لگائے ہیں، دنیا گواہ ہے کہ یہ بنک جو قرضے دیتے ہیں سود سمیت واپس کرنے پڑتے ہیں. فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چینی بنک ان تمام منصوبوں سے لمبے عرصے کے دوران 6 سے 8 فیصد کی شرح سے واپسی کی لالچ میں ایسا کر رہے ہیں یعنی یہ تمام تو جو سڑکیں اور تعمیراتی کام کیے جائیں گے، وہ اسی ملک کے محنت کش عوام کو سود سمیت واپس کرنے پڑیں گے. سرمایہ کار کیلئے عام آدمی کی حیثیت ایندھن کچھ زیادہ نہیں.
اب پاکستان جو پہلے سے ہی سینکڑوں ارب ڈالر سے زائد کا بیرونی قرضدار ہے. اور ایسا ملک جو قرضہ چکانے کیلئے الٹا قرضہ لیتا ہے اسکا معاشی دیوالیہ ہونے کے امکانات بہت زیادہ ہے.
پاکستان کیلئے پریشانی کا عالم اس قدر بے کہ چینی برآمدات کیوجہ سے اسکے لاکھوں صنعتیں پہلے سے ہی بند ہو چکے ہیں. پاکستان چین کے ساتھ کی گئی معاہدوں میں کافی حد تک پھنس چکا ہے جس کو نکلنے کا اب کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے.
حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے فنانشل ٹائمز نے اپنے ایک رپورٹ میں یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستانی حکام سی پیک کو لے کر کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں. پاکستانی حکام کے مطابق گذشتہ حکومت نے اعداو شمار کے غلط اندازے لگا کر چائنا سے ڈیل کیئے ہیں جن سے ہمارے تحفظات ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان تمام معاہدوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے.
پاکستانی حکام کے مطابق سی پیک کی مد میں ٹیکس بریک صرف چینی کمپنیوں کو مل رہا ہے اور اس پروجیکٹس میں صرف چینی کمپنیاں فائدہ اٹھا رہے ہیں. سننے میں آرہا ہے کہ پاکستان نے سی پیک معاملے کو لیکر ایک نو رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جو اسکا بغور جائزہ لے گا.
ملیشیاء نے چائنا کے ساتھ حالیاً 20 بلین ڈالر کا ایک منصوبہ منسوخ کیا تھا. ملیشیاء کے مطابق وہ قرضوں تلے نئے منصوبوں کی آڑ میں مزید پھنسنا نہیں چاہتے ہیں.
مہاتیر محمد کے مطابق ” دنیا میں نوآبادیاتی تسلط کی نئی روش کا آغاز ہو گیا ہے کیونکہ غریب ممالک آزاد تجارت کے ماحول میں امیر ممالک کا مقابلہ نہیں کر سکتے”.
دنیا میں اب تک لڑی جانے والی اکثر بڑی جنگیں وسائل پر قبضہ جمانے کی جنگیں تھیں اور رہیں گے. تاوقتیکہ وسائل پر اشتراکی ملکیت نا ہو.
جب تک دنیا میں مشترکہ ملکیت کا دور تھا تب سب ملکر پیداوار کرتے تھے اور ملکر کھاتے تھے. مگر آج کی طرح ہزاروں انسان بھوکے نہیں مرتے اور نا جنگوں میں مارے جاتے. عالمی سامراج گَدھ کی طرح نو آبادیات پہ جھپٹ پڑتے ہیں.
ایک کمیونسٹ ملک ہوتے ہوئے چائنا دنیا کا سب سے بڑا سامراج بن کر دنیا میں ابھر رہا ہے۔ چائنا اپنے نئے نو آبادیاتی تسلط کو برقرار رکھنے اور چھوٹے چھوٹے قومیتوں کو معاشی غلام بنانے کیلئے ان کو قرضوں تلے دبانا چاہتا ہے. چائنا نے سنہ 2000 سے اب کئی افریقی ممالک کو قریباً 124 بلین ڈالر کے قرضے دیئے ہیں جن میں کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں چائنا کے پروجیکٹس زیر تکمیل ہیں یا کچھ ممالک میں اپنی فوجی بیس کیمپس بھی بنا لیئے ہیں.
چائنا نے حال ہی میں، ایک افریقی ملک زمبیا کے پاور فرم اور مرکزی ایئرپورٹ کو قرض نہ اتارنے کی پاداش میں اپنے قبضے میں لے لیا.
سری لنکا نے چین سے 8 بلین ڈالرز کا قرضہ 7 فیصد شرح سود کے عوض سے لیا تھا، جو 2017 تک ادا کرنے کی صورت میں سری لنکا کی حکومت نے ہنبنٹوٹا کی بندرگاہ کو ایک ارب ڈالر کے عوض ایک چینی کمپنی کو ننانوے سال کی لیز پر دینے کا معاہدہ کر لیا ہے جس پر چین کا 80% قبضہ برقرار رہے گا.
چائنا کے اندر اقلیتوں کو تحفظ فراہم نہیں. آئے روز میڈیا میں وہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا خبر سننے کو ملتا ہے، اقلیتوں کے عبادت گاہیں، تعلیمی ادارے جلائے جا رہے ہیں اور وہاں بین الاقوامی ابلاغ عامہ کو رسائی تک نہیں دی جارہی ہے.
چین جو خود کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت سمجھتی ہے اور پوری دنیا میں برآمدات کر رہا ہے، لیکن دنیا میں سب سے زیادہ غریب چین میں ہی بستے ہیں ایک سروے رپورٹ کے مطابق چین میں 90 کروڑ سے زائد لوگ غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، حتی کہ بیجنگ اور شنگھائی میں لوگ فٹ پاتھوں پر سوتے ہیں، چین میں ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں جانے کیلئے ویزا لینا پڑتا ہے. غیر قانونی محنت کشوں کو لاکھوں کی تعداد میں پنجروں میں بند کرکے رکھا جاتا ہے. ان آجوج ماجوج کو چین کبھی بھی دنیا پہ حملہ آور ہونے کیلئے چھوڑ سکتا ہے. کوئی شک نہیں کہ یہ لاکھوں کی تعداد میں عنقریب سی پیک کے راستے بلوچستان وارد ہوجائیں، ویسے کچھ دنوں قبل ایک رپورٹ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ چین ہر سال 6 لاکھ چینی باشندے بلوچستان بھیجے گا.
سی پیک بلوچستان سے لیکر چائنا تک متنازعہ روٹ سے گزر کر جاتی ہے جس میں مقبوضہ خطے بلوچستان سمیت گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر شامل ہیں جہاں آئے روز ریاستی اداروں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہتی ہیں، پاکستانی مقبوضہ کشمیر وہ متنازعہ خطہ ہے جہاں اقوامِ متحدہ کی مجوزہ قرار داد کے مطابق پاکستان کوئی دوسرے بیرونی ملک سے معاہدہ کرکے کسی منصوبہ بندی کے اہل نہیں ہے اور سی پیک روٹ کا وہاں سے گزرنا ہی بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے.
کسی بھی خطے یا علاقے میں وہاں کے مقامی باشندوں کی رضامندی کے بغیر کوئی منصوبہ یا ترقی، ترقی نہیں کہلایا جا سکتا بلکہ وہ ان کیلئے استحصالی منصوبے ہوتے ہیں جن سے انکی زمین اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے انکی نسل کشی کی جاتی ہے، حق کیلئے آواز اٹھانے یا قبضہ گیریت کو نا ماننے کی شرط میں آپ کو ترقی مخالف یا دشمن کا ایجنٹ قرار دیکر مار دیا جاتا ہے. تاکہ خوف اور دہشت کا ماحول بنا رہے.
بلوچستان، گلگت بلتستان اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر سے ہزاروں کی تعداد میں جبری گمشدگیاں بھی اسی استحصالی منصوبے کو سرانجام دینے کی کوشش ہے، سی پیک چائنا اور پاکستان کا ایک ایسا سنہرا سپنا ہے جس کی تعبیر اس جہاں میں تو ممکن نہیں.
دی بلوچستان پوسٹ :اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔