خالد بلوچ کی گمشدگی اور ہماری بے بسی
توارش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں طلباء، اساتذہ، پروفیسرز، وکلاء اور مزدور سمیت ہر مکتبہ فکر کے لوگ ریاستی فورسز کے ہاتھوں گمشدہ ہوئے ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں مسخ شدہ لاشیں دریافت ہوئے ہیں یہ مسخ کیئے ہوئے لاشیں اُن گمشدہ افراد کی تھیں جنہیں ریاستی فوج و ایجنسیوں نے مختلف جگہوں سے لاپتہ کرتے ہوئے اپنے تحویل میں لیا ہوا تھا۔ جنہیں بعدازاں انسانیت سوز اذیت پہنچانے کے بعد ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا تھا، ریاست اپنی کالونیل ازم کو برقرار اور قبضے کو مستحکم کرنے کیلئے ہر حربے کو استعمال کرتا آیا ہے۔ لوگوں کی جبری گمشدگی انہی کا شاخسانہ ہے، لیکن بلوچستان میں سب سے زیادہ وہی طبقہ ریاستی فورسز کی زیادتی کا نشانہ بنا ہے جس نے تعلیم کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے جنہوں نے بلوچستان میں سیاسی کلچر کو پروان چھڑانے کی کوشش کی ہے۔
ریاستی جبر، ظلم و زیادتی کا واضح مثال بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد پر جارحانہ کریک ڈاؤن ہے، بی ایس او جیسے ایک پرامن طلباء تنظیم کی سیاسی جدوجہد سے خائف ہوکر ریاستی ایجنسیوں نے تنظیم کے مخلص کارکناں و لیڈران کو لاپتہ و شہید کرنا شروع کیا، جو آج تک شدت کے ساتھ جاری و ساری ہے، تنظیم سے منسلک کئی دوستوں کی مسخ شدہ لاشیں ملیں ہیں جبکہ زیادہ تر ابھی تک پاکستانی قید خانوں میں پابند سلاسل ہیں۔ جنہیں بدترین تشدد کا سامنا ہے، بلوچ تنظیم کے بعد سب سے زیادہ کوئی طبقہ ریاستی جبر کا شکار رہا ہے تو وہ صاحب تعلیم و دانشور اساتذہ و پڑھا لکھا طبقہ ہے۔ دنیا کے اندر سارے قابضوں کا وطیرہ رہا ہے کہ اگر کسی قوم کو تباہ کرنا چاہتے ہو تو تعلیم یافتہ طبقے کو نشانہ بناؤ، اگر تعلیم یافتہ لوگ آپ کی جبر ظلم و ناانصافی کے سامنے جھک گئے تو وہ قوم آپ کے سامنے جلد زیر ہو جائے گا، اسی پالیسی پر گامزن قابض پاکستانی فوج مقبوضہ بلوچستان میں تعلیم یافتہ لوگوں کو کئی عشروں سے اپنی درندگی کا نشانہ بنا رہی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے یہاں ایک ایسا خوف طاری ہو گیا ہے کہ ریاستی جبر و طاقت کے بے دریغ استعمال پر نہ کوئی دانشور قلم اُٹھاتا ہے اور نہ کوئی لکھاری کچھ قلمبند کرنے کی جرات کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب میڈیا بھی سنسرشپ کا شکار ہے اور ہمیشہ کی طرح ریاستی زبان استعمال کرتا آ رہا ہے۔
بلوچستان میں کئی عظیم و ممتاز و تعلیم یافتہ اساتذہ و پروفیسرز دشمن فوج کے ہاتھوں شہید کئے جا چُکے ہیں، جن میں سرفہرست معلم اور بلوچ دانشور شہید صباء دشتیاری، سر زاہد آسکانی، ماسٹر سفر خان، نور احمد، عبدالرزاق، رسول جان اور اُستاد نذیر مری ہیں۔ صباء دشتیاری صاحب کو پاکستانی اینٹلی جنس آئی ایس آئی کے کارندوں نے 1 جون 2011 کو کوئٹہ میں سریاب روڈ پر دن دہاڑے گولیوں سے چھلنی کردیا، سر زاہد آسکانی کو علم کے چراگ کو روشن کرنے و گوادر جیسے علاقے میں تعلیمی نظام کو فروغ کرنے کی پاداش میں آئی ایس آئی کے خاص بندوں( آئی ایس آئی ایس) نے گوادر جیسے شہر میں سرے عام قتل کر دیا، رسول جان کو تربت عطا شاد ڈگری کالج ہاسٹل سے پاکستانی ایجنسیوں نے اغواء کیا اور پھر کچھ وقتوں تک اُسے جانوروں جیسا اذیت دیکر بعدازاں شہید کرکے مقابلہ میں مارنے کا جھوٹا دعویٰ کیا۔ اسی تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ریاستی فوج نے بلوچستان کے کونے کونے سے قومی تحریک سے جُڑے باشعور اشخاص کو اغواہ و شہید کیا اور آج تک یہ سلسلہ بدستور جاری ہے جو تاحال ختم ہوتا دیکھائی نہیں دیتا۔
لسبیلہ بھی بلوچستان کا ایک ایسا جگہ ہے، جہاں تعلیم سے زیادہ لوگ مزدوری کو اہمیت دیتے ہیں اس کی وجہ وہاں کے لوگ نہیں بلکہ جام کمال و اس کے خاندان اور ریاستی سازشیں ہیں، بلوچستان کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں بھی بہت منظم رنگ سے تعلیم کو تباہ و منشیات و دوسرے برائیوں کو عام کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے جہاں تعلیم یافتہ لوگ گنے جا سکتے ہیں، پورے لسبیلہ میں ایک ہی یونیورسٹی ہے جس کے حوالے جمال کمال نے کہا تھا کہ میرے باپ(جام محمد یوسف)نے اپنی زندگی میں ایک واحد غلطی کی تھی، جس نے لسبیلہ میں یونیورسٹی قائم کی تھی اگر وہ یہاں یونیورسٹی قائم نہ کرتا تو میں اس بات کی گواہی دیتا کہ گلے مزید کئی نسلوں تک یہاں کے لوگ ہمیں اسی طرح پوجتے رہیں گے لیکن اگر یہاں لوگوں نے تعلیم حاصل کی تو وہ ہماری بالادستی کو مزید برداشت نہیں کریں گے۔ اسی لیے ہمیں ہر طریقے سے لوگوں کے اندر بے تعلیمی کو مزید گہرا کرنا ہے تاکہ ہم اپنی بالادستی کو قائم کریں اور دوسری جانب ریاست جس کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تعلیم کو ہر عام و خاص تک پہنچائیں لیکن چونکہ جس ریاست سے ہمارا جبراً رشتہ ہے اور وہ ایک قابض ہے اور قابض کا رویہ قطعاً ایک ریاست جیسا نہیں ہوگا بلکہ قابضانہ رویہ ہوگا جبکہ قابض کی ہمیشہ سے یہی کوشش ہے کہ بلوچستان کے کسی کونے میں تعلیمی مظالم اچھا نہ ہو تاکہ لوگ علم و زانت سے دور رہیں اور جب لوگ تعلیم سے دور رہیں گے تو وہ اپنی شناخت تہذیب کلچر اور تاریخ سے بیگانہ ہونگے جب کوئی انسان اپنی تاریخ تہذیب اور کلچر سے انجان ہوگا تو اُس میں دشمن سے آزادی لینے کا جذبہ بیدار نہیں ہوگا، آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ دشمن کو ہی اپنا سب سے عزیز دوست سمجھنے لگے گا جس کا واضح آج ہمیں بلوچستان میں خاص کر لسبیلہ میں دیکھائی دے رہا ہے، جہاں کئی لاعلم دشمن کو اپنا دوست سمجھ بیٹھے ہیں جنہیں قابض حربے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
لسبیلہ میں پڑھے لکھے لوگوں کی تعداد کا آپ اس بات سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ لسبیلہ یونیورسٹی میں مقامی ایک بھی طالب نہیں ہے بلکہ سارے کے سارے باہر سے آئے ہوئے طلباء ہیں اور اگر ایک دو طلباء آتے بھی ہیں تو پڑھائی مکمل کرنے سے پہلے ہی غائب ہو جاتے ہیں۔ اب ان حالات میں خالد جیسے اساتذہ کی گمشدگی اس بات کی مکمل غمازی کرتا ہے کہ پاکستان بلوچ کو تباہ کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ اُستاد خالد بلوچ کو آپریل 2018 کو لسبیلہ سے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری طور لاپتہ کر دیا اُس دن سے اُن کے بارے میں کسی کو بھی معلومات نہیں ہے، دنیا کے اندر کچھ ایسے ریاستیں ہیں جہاں مظاہرے کرنا غیر قانونی قرار دیا گیا ہے لیکن قانون ایک طبقہ پر رائج نہیں ہو سکتی وہ اساتذہ کا طبقہ ہے جبکہ ہمارے یہاں بنا کسی جرم کے بنا کسی غیر قانونی عمل کے پاکستانی ایجنسیاں دن دہاڑے خالد جیسے استادوں کو لاپتہ کرتے ہیں اُنہیں انسانیت سوز اذیت دیتے ہیں پھر اُن کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں لیکن ریاست کو سوال کرنے والا کوئی نہیں۔
دنیا میں یہ ایک عام سی بات ہے کہ اگر آپ کے طبقے کا کوئی بھی انسان ظلم کا شکار ہوتا ہے، تو آپ کی مدد کو دوسرا کوئی انسان آئے نہ آئے لیکن آپ کے طبقے کے لوگ نکلتے ہیں کیونکہ اُن کا یہ شعبہ ہوتا ہے کہ اگر آج ہم نے اُن کیلئے آواز بلند نہیں کیا تو کل دوسرا شکار ہم بھی ہو سکتے ہیں اور پھر ہمارے لیئے بھی کوئی نہیں بولے گا۔ اسکا ایک منظر ہمیں بنگلادیش میں نظر آیا جہاں دو طلباء بس ایکسیڈنٹ میں جانبحق ہوئے تو پورے بنگلادیش سے طلباء مظاہرے کرنے نکلے اور اپنی یکجہتی و طلباء طاقت سے ریاست کو جھکانے میں کامیاب ہوئے اگر اُن کی زندگیاں واپس نہ لا سکے لیکن اُن کی جدوجہد کی بدولت آئندہ شاید کوئی طالب علم روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اپنی زندگی کی بازی نہ ہارے، اسی طرح تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی طبقے پر ظلم ہوا ہے تو اس کی مدد کو سب نکلے ہیں۔ مارکس نے کہا تھا کہ دنیا کے مزدور ایک ہو جاؤ مارکس کے فکر کو منزل مقصود تک پہنچانے کیلئے لینن نے جدوجہد کی اور پوری دنیا کے مزدور ایک ہوکر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نکل کر جدوجہد کی اور کامیابی حاصل کی اس نعرے کے ساتھ اُن ملکوں کے مزدور بھی نکلے جہاں اُنہیں اپنے حقوق مل رہے تھے لیکن اگر ہم بلوچستان کی بات کریں تو ہر کوئی یہی سوچ کر سو جاتا ہے کہ میرا کیا مجھے کیوں کر کوئی مارے گا یا لاپتہ کرے گا میں کیون ان چکروں میں پڑ کر اپنے خاندان کو مصیبت میں ڈالوں۔ آج انہی جیسے سوچوں کی وجہ سے ریاست کسی کو بھی لاپتہ کرنے میں جھجھک محسوس نہیں کرتا کیوںکہ اُنہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ انہیں لاپتہ کرنے ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکنے سے مجھے کچھ نقصان نہیں ہوگا کیونکہ قابض کیلئے سب سے خوفناک چیز لوگوں کے اندر ان کے خلاف نفرت پھیلانا ہے۔
خالد بلوچ سمیت ہزاروں بلوچ اساتذہ و باشعور طبقے کی جبری گمشدگی پر دوسرے اساتذہ و باشعور طبقے کی خاموشی حیران کن اور ناقابل یقین ہے زندہ قوموں کے اندر ایک اساتذہ کو ہاتھ لگانے سے پورا قوم آگ بگولا ہو جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں پاکستانی فوج و آئی ایس آئی کے کارندے ان کو اغواہ کرتے ہیں۔ اُنہیں زندان میں بے انتہاء اور بے رحمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کئیوں کی مسخ شدہ لاشیں ملتیں ہیں جبکہ کئیوں کو تاعمر پابند سلاسل کیا جاتا ہے جن کیلئے آواز اُٹھانے کو کوئی نہیں اٹھتا۔
خالد بلوچ کیلئے ہر مکتبہ فکر کے لوگوں کو آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ خالد نے ہر مکتبہ فکر کے لوگ بنائے ہیں اُنہوں نے کئی طالب علموں کی علم جیسے زیور سے آراستہ کیا آج اُنہیں بنا کسی جرم کے پاکستانی آئی ایس آئی نے قید و بند کیا ہے عین ممکن ہے کہ رسول جان علی جان اور عبدالرزاق کی طرح خالد کو بھی ریاستی فوج تعلیم کے عام کرنے کی جرم میں قتل کر دیں اس سے پہلے کے بہت دیر ہو جائے آؤ خالد کی بازیابی کیلئے مہم چلاتے ہیں اور اُنہیں دوبارہ زندگی عطا کریں تاکہ وہ تعلیم کو پھیلاتے رہیں۔