بلوچستان کی حکومت نے صوبے کے تقریباً 30 اضلاع کے دیہی علاقوں میں امن وامان برقرار رکھنے کی ذمہ دار لیویز فورس کو جدید خطوط پر ازسرِ نو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے جس پر آٹھ ارب روپے لاگت آئے گی۔
یہ بات بلوچستان کے وزیرِ داخلہ میر سلیم کھوسہ نے بدھ کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کے دوران بلوچستان میں امن وامان اور لیویز اہلکاروں پر حملوں کے بارے میں تحریکِ التوا پر بحث سمیٹتے ہوئے بتائی۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں امن وامان کی صورتِ حال ماضی سے کافی بہتر ہے جس کی ایک وجہ شہری علاقوں میں کام کرنے والی پولیس کو جدید تربیت کی فراہمی اور اُن کی صلاحیتوں میں اضافہ ہے۔
صوبائی وزیرِ داخلہ نے ایوان کو بتایا کہ صوبے کے دیہی علاقوں میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ دار لیویز فورس کو بھی اب جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا جس کے لیے صوبائی حکومت نے نئے بجٹ میں آٹھ ارب روپے رکھے ہیں۔
وزیرِ داخلہ نے کہا کہ لیویز کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیوں کہ پولیس صوبے کے صرف 10 فی صد علاقے میں کام کرتی ہے جب کہ باقی 90 فی صد علاقوں میں امن وامان کی ذمہ داری لیویز کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تنظیمِ نو کے تحت لیویز کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے جن میں آپریشنل ونگ، تحقیقاتی ونگ، انٹیلی جنس ونگ، سریع الحرکت فورس، بم ڈسپوزل ونگ اور ہائی ویز لیویز شامل ہوں گے۔
صوبائی وزیر نے بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں کی سکیورٹی کے لیے بھی لیویز کا اسپیشل پروٹیکشن یونٹ قائم کیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور چین کے درمیان 60 ارب ڈالر مالیت کے اقتصادی راہداری منصوبوں میں بلوچستان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے اور اس راہداری کا بڑا حصہ اس صوبے کے دیہی علاقوں سے گزر کر ساحلی شہر گوادر تک پہنچتا ہے۔
اس راہداری کا 98 فی صد حصہ بلوچستان کے دیہی علاقوں سے گزرتا ہے جہاں امن وامان کی ذمہ داری لیویز فورس کی ہے۔ لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کی مناسب تربیت نہ ہونے کے باعث فرنٹیر کور بلوچستان میں لیویز فورس کی معاونت کرتی ہے۔
واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے فوج کی مدد سے ‘سی پیک’ منصوبوں کی سکیورٹی کے لیے 10 ہزار اہلکاروں پر مشتمل ایک علیحدہ فورس قائم کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔
بدھ کو اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان کے وزیرِ داخلہ نے مزید کہا کہ بلوچستان میں شیعہ ہزارہ برادری کے لوگوں کو نشانہ بنانے کے واقعات اب تقریباً ختم ہوگئے ہیں لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت ان کے بقول کوئٹہ سیف سٹی پراجیکٹ پر چند ہفتوں میں عمل شروع کردے گی جس کے تحت شہر میں 1400 خفیہ کیمرے نصب کیے جائیں گے۔
بلوچستان کے صرف تین اضلاع اور ضلعی مراکز یعنی چھوٹے شہروں میں امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی ہے۔ جب کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے 44 فی صد علاقے میں یہ ذمہ داری ریاست کے وفادار قبائلی نوابوں اور سرداروں کے منظورِ نظر افراد پر مشتمل لیویز فورس پر عائد ہوتی ہے۔
لیویز فورس انگریزوں نے ایک صدی سے زائد عر صہ قبل برِصغیر پر قبضے کے بعد تشکیل دی تھی۔ اس فورس کے زیرِ نگرانی علاقوں کو ‘بی ایریا’ اور پولیس کے زیرِ نگرانی علاقوں کو ‘اے ایریا’ کہا جاتا ہے۔
بلوچستان میں اس وقت وفاق کے زیرِ انتظام لیویز اہلکاروں کی تعداد 6559 اور بلوچستان حکومت کے زیرِ انتظام فورس کی تعداد 16573 ہے۔
سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے 2005ء میں لیویز فورس کو پولیس میں ضم کرکے پورے بلوچستان کو پولیس کے حوالے کردیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کے وزیرِ اعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی سابق صوبائی حکومت نے اپریل 2010 میں اس فورس کو دوبارہ بحال کردیا تھا۔