بلوچ سماج پر نوآبادیاتی نظام کے اثرات
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نوآبادیاتی نظام کے ہمارے سماج پر اثرات کے حوالے سے ایک تحقیق کی ضرورت ہے جو باریک بینی سے تمام حقائق کو سامنے لائے کہ 1839 سے لے کر 1947 اور 1947 سے لے کر آج تک ہمارا سماج نوآبادیاتی پالیسیوں کے باعث کہاں پہنچ چکا ہے۔
اس حوالے سے کسی قسم کی سطحی رائے قائم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ اگر کوئی سطحی رائے قائم کی جاتی ہے تو اس میں اور مطالعہ پاکستان میں کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا،جو ذہنوں کو گمراہ کن حد تک کج روی کی جانب دھکیل دیتے ہیں جبکہ ہمیں تنقیدی سوچ کیساتھ اس نوآبادیاتی دورانیے کو سمجھنا ہوگا۔
تاریخی سفر میں نوآبادیاتی پالیسیوں کے غلبے میں ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور ہم کہاں پہنچ سکتے تھے ان دونوں نقاط پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
انگریز سامراج نے بلوچ گلزمین پر “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی جو پالیسی اپنائی اس کا تسلسل جاری رہا، بلوچ گلزمین کی عملاً تین حصوں میں تقسیم اور پھر ان حصوں میں اپنے نمائندوں کے ذریعے اپنی سامراجی مفادات کا تحفظ، سردار کو وراثت ملنا یعنی نسلی طور پر مقامی نمائندگی کا قیام، ایک خاندان کے ذریعے قبیلے کو کنٹرول میں رکھنا زیادہ آسان ہے اور اس لیے سردار کا تعین جب ایک ہی خاندان سے ہوگا تب سردار کا کنٹرول کرنا زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا۔ یوں سردار کے ذریعے تقسیم کو برقرار رکھنے اور باقاعدہ قبائلی جھگڑوں کے ذریعے الجھانے میں سردار کی اہمیت دگنی ہوجاتی تھی اور سردار فیصلہ کن کردار ادا کرتا تھا لیکن اس کردار پر دسترس کسی اور کا تھا۔ اس سامراجی transformed قبائلی نظام نے بلوچ سماج کو الجھانے کے لیے نوآبادیاتی کل پرزے کا کام دیا اور گذرتے وقت کیساتھ یہی قبائلی شخصیات کسی نہ کسی سطح پر بلوچ سماج کی سیاسی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے رہے۔
برطانوی دور میں یوسف عزیز مگسی نے نیشنلزم کی بنیاد پر جب بلوچ تحریک کا احیاء کیا، تب یہی سردار طبقہ ان کے خلاف ہوگیا تب میر یوسف عزیز مگسی نے یہاں تک کہا کہ “سرداروں سے کسی قسم کی امید رکھنا بیوقوفی ہے ان کو کچل دینا چاہیے۔” یوسف عزیز مگسی نے اپنے نام کیساتھ سے یہ لفظ کھرچ کر مٹایا تھا اور اپنے دوست کو خط میں باقاعدہ لکھا تھا کہ مجھے اس لعنت سے نجات مل گئی ہے۔ بلوچ نیشنلزم کے بانی نے اس سرداری کے ادارے کی نوآبادیاتی حقیقت کا ادراک حاصل کرلیا تھا کہ یہ ادارہ بلوچ قومی تشکیل کی راہ میں سب سے بڑا رکاوٹ ہوگا اور یہ ہمیشہ نوآبادیاتی نظام کا کل پرزا رہیگا۔ میر یوسف عزیز مگسی نے بلوچ تحریک کو منظم کرنے کے لیے آل بلوچ کانفرنس تک بلائی۔ یہ ایک قومی رہنما کی بالیدگی تھی لیکن اس دور اندیشی سے ان کے بعد آج تک کسی بلوچ رہنما نے رہنمائی لینے کی کوشش نہیں کی بلکہ محدود سطح کی کوششوں سے آگے بڑھنے کی ناکام کاوشیں کی جاتی رہیں۔ زماں و مکاں کے جبر نے بلوچ قوم سے یوسف عزیز مگسی کو چھین کر ایک ایسا خلا قائم کیا جو آج تک پر نہیں ہوسکا کیونکہ آج تک کسی نے بلوچ نے رہنما بننے کی کوشش نہیں کی بلکہ کسی نہ کسی سطح پر آکر قبائلی رہنما بن گئے، کسی نے نوابی کا ٹائٹل سر پر سجایا تو کوئی کرشماتی بن گیا لیکن بلوچوں کی جدوجہد اس کشمکش میں نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی شکنجے کے حوالے ہوتی چلی گئی۔
پاکستان کے قیام اور پھر جبری قبضے کے بعد سرداروں نے ریاستی جبر کا حصہ بن کر اپنی اجارہ داری کو بڑھانے کی کوشش کی ماسوائے سردار خیربخش مری جنہوں نے نوآبادیاتی نظام کا حصہ بننے کی بجائے اس کے خلاف جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ نواب بگٹی نے بھی اپنے آخری ایام میں اسی راستے کو اپنایا، سردار عطااللہ مینگل نے بھی قبائلی نظام کو بلوچ نیشنلزم کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا اور یہی تین کردار نوآبادیاتی قوتوں کو کھٹکتے رہے کیونکہ انہوں نے نوآبادیاتی پالیسیوں کا حصہ بننے کی بجائے بلوچ جدوجہد کو اپنایا لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ان رہنماؤں کی کوششیں قومی سطح کی بجائے قبائلی سطح کی تھی، یوں یہ کسی منظم تحریک کا روپ دھارنے کی بجائے گذرتے وقت کیساتھ کسی نہ کسی مقام پر آکر نوابادیاتی نفسیاتی الجھنوں کا شکار ہوکر رہ گئی، کیونکہ ابتدائی مرحلے میں کسی بھی قسم کے کردار کا تعین نہیں کیا گیا تھا۔
جب سب اپنے بوجھ الگ سے اٹھانے لگ جائیں تب یہ اتنے بھرکم ہوجاتے ہیں کہ اپنا ذات ہی بوجھ لگنے لگتا ہے، یوں راہ فرار سہل لگتا ہے، جو تحریک نوآبادیاتی نظام کے خلاف شروع ہو لیکن اس کا رخ جب دیسی اپنے ہی جانب موڑ لے تب وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پر نوآبادکار کا کام سہل کردیتا ہے اور یہی ہوا۔ مزاحمتی تحریک کو ایک متبادل بیانیہ فراہم کرنے سے پہلے ہی نفسیاتی بحرانوں نے آگھیرا اور ہر کسی نے اپنے مزاج کے مطابق مسائل کے حل تلاش کرنا شروع کیا لیکن کوئی بھی تحریک کو درپیش مسائل تو کجا ایک انسانی المیے کو روکنے تک میں بری طرح ناکام رہے کیونکہ سب ایک دوسرے سے اس حد تک متنفر تھے کہ ایک دوسرے کیساتھ کام کرنا تو دور بیٹھنے تک کو راضی نہ تھے۔ یوں یہ قبائلی ذہنیت نے بلوچ تحریک کو وہ دن بھی دکھائے جب اندرونی لشکر کشی تک نوبت آ پہنچی اور مزید الجھنیں پیدا ہونے لگے۔
قبائلی ذہنیت نے مسائل کو بند گلی میں پہنچادیا، یہاں یہ واضح رہے کہ مکران میں بی ایل ایف جس کی بنیاد میں قبائلی ذہنیت کا عمل دخل نہیں تھا وہ اس دورانیہ میں محفوظ رہی اور اس کا کردار کافی مثبت رہا حالانکہ فرد واحد کی جانب سے ان کے خلاف کافی پروپیگنڈہ کیا گیا تاکہ ان کی ساکھ کو اس حد تک متاثر کیا جائے کہ وہ بھی ان کے دسترس میں آجائے لیکن اس قبائلی ذہنیت نے از خود بی ایل اے کو مزید دولخت کردیا اور باشعور جہدکار جو قبائلی اپروچ کے نقصانات کا اندازہ لگا چکے تھے انہوں نے اب ادارتی بنیادوں پر از سر نو تنظیم کاری کا مطالبہ کردیا لیکن قبائلی ذہنیت یہ سب کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں تھی اس لیے یہاں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملی کہ زیر اثر آنے کی بجائے جہدکاروں نے قبائلی طرز کو مکمل مسترد کردیا۔ آج یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ قبائلی نظام کو نوآبادیاتی پالیسیوں نے اپنے مفادات کے لیئے اس حد تک transform کیا ہے کہ یہ بلوچ قومی تحریک کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے اور اب اگر بلوچ قوم نے آگے بڑھنا ہے تو اب قبائلیت کے مسلسل نقصانات اور منظم سیاسی تحریک بننے کی راہ میں رکاوٹ بننے سمیت نوآبادکار کی نمائندگی کرنے کے تسلسل کو باریک بینی سے سمجھنا ہوگا وگرنہ جذباتی بنیادوں پر چند ایک کرداروں کو کرشماتی قرار دے کر ہم کسی صورت فیصلہ قبائلی نظام کو جھولی میں نہیں ڈال سکتے۔
آخری تجزیے میں ہمیں اب نوآبادیاتی transformed قبائلی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا اور یہی واحد راستہ ہے بلوچ تحریک کو ادارتی بنیادوں پر منظم کرنے کا وگرنہ آنے والے دور میں سندھ کا بھٹو اور ہمارے فرد واحد جیسے کردار زندہ اور امر رہینگے لیکن تحریک پس منظر میں چلی جائیگی۔