بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی ادارے سیو دی چلڈرن کا کہنا یمن میں مزید دس لاکھ بچے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ جنگ کی وجہ سے خواراک کی قیمتوں میں اضافہ اور یمنی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر مزید خاندانوں کو خوراک کی کمی کا شکار کرے گا۔
لیکن ایک اور بڑا خطرہ حدیبیہ شہر کے گرد جنگ کی وجہ سے ہے کیونکہ یہیں بندرگاہ پر امدادی سامان پہنچتا ہے جسے جنگ کے شکار علاقوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
سیو دی چلڈرن کے مطابق ملک میں اس وقت پچاس لاکھ بیس ہزار بچے قحط کا سامنا کر رہے ہپں۔
یمن میں حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان لڑائی کا آغاز سنہ 2015 کے اوائل میں ہوا تھا۔ پھر اس جنگ میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک بھی شامل ہوئے۔
وہاں اساتذہ اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں دو سال سے تنخواہ نہیں ملی۔
جنگ کے بعد سے اب تک خوراک کی قیمتوں میں 68 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔
اسی طرح یمنی ریال کی قدر میں اس عرصے کے دوران 180 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
یہ بھی سامنے آیا ہے کہ رواں ماہ کے آغاز میں ملک کی تاریخ میں کرنسی کی قدر سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے عوام پر مزید بوجھ پڑا۔
حدیبہ پورٹ سے آنے والی امداد ہی قحط کی صورتحال اور وبائی امراض سے بچا سکتی ہے۔ گذشتہ برس اسی وجہ سے لاکھوں یمنی متاثر ہوئے تھے۔
رواں برس کے آغاز میں سیو دی چلڈرن نے بتایا تھا کہ ادارے نے پانچ سال سے کم عمر کے چار لاکھ کے قریب بچوں کو امداد پہنچائی ہے تاہم ادارے نے خبردار کیا تھا کہ 36 ہزار بچے اس برس کے ختم ہونے سے پہلے موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری اس جنگ میں اب تک 10 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جن میں سے دو تہائی عام شہری تھے۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 55000 بتائی گئی ہے۔