بکھری ہوئی طاقت – پندران زہری

249

بکھری ہوئی طاقت
تحریر: پندران زہری

آج میں جو کچھ لکھنے کی جسارت یا کوشش کررہا ہوں، وہ ایک غلام قوم کی بکھری ہوئی طاقت یا قوت کے بارے میں ہے جس طرح بلوچ قوم نے اپنی تحریک کا آغاز کیا شاید اتنا معلوم نہیں تھا کہ ہم ایک طاقت ور اور بہادر قوم میں سے ہیں، جیسے ہی ہماری تحریک نے اپنی جڑیں عوام میں مضبوط کرنے کی کوشش کی، تو بلوچ قوم نے بھی ان جڑوں سے اپنا رشتہ استوار کرکے تنظیم کی طرف رجوع کرلیا اور انسانیت و انسانی اقدار کی پاسداری کی بنیاد پر ایک مضبوط و منظم تنظیم کاری کا حصہ بنتے گئے جوکہ آج تک جاری و ساری ہے اور امید ہیکہ اسی طرح برابری اور نیشنلزم کی بنیاد پر رہیگا۔ جیسے ہی بلوچ قوم نے ایک اسطرح کی پارٹی بنائی ویسے ہی ہمارے مسلح تنظیموں میں کچھ خامیاں پائی گئیں. پھر جو بلوچ قوم کے خیرخواہ تھے انکی کوششوں اور محنت کی وجہ سے انکی خامیاں ختم کرنے لگے.

جس طرح سے ہر کرئی اپنے حساب سے اور اپنے ناموں سے تحریک کو آگے لے جانے کی جدوجہد میں مگن تھے اور ہر کوئی اپنی طاقت اور اپنی حساب سے دشمن پر وار کرتا رہا، جو لوگ ان باتوں پر سوچتے ہونگے تو ان لوگوں کے سامنے حقیقت واضح طور پر دکھائی دیگی کہ اپنے مقصد کے ساتھ مخلص لوگ تعداد میں چاہے کتنے کم ہوں لیکن جزبہ حب الوطنی کے بدولت ایک طاقت بن جاتے ہیں، وہ جنکی منزل اور مقصد ایک ہے اور ہر کوئی اپنے بساط کے مطابق اس منزل کی طرف رواں دواں ہے. یہ ایک حقیقت ہے ان سب کو بہت سے مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا جوکہ ان مشکلات کا سامنا کرنے کیلئے ایک ساتھ ہونے کی صورت میں بہت ہی کم مشکلات سامنا کرنا پڑیگا.

اس سے پہلے بلوچ قوم کی طاقت بکھری ہوئی تھی، اسے آج ہماری آزادی پسند سیاسی پارٹیوں نے اور بلوچ جہد کاروں نے متحد ہونے پر مجبور کیا اور آج ایک ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور پوری بلوچ قوم میں ایک خوشی کی لہر دوڈ رہی ہے. یقیناً دشمن کو جھٹکا سا لگے گا کہ پہلے ان پر ایک یا دو وار کیا جاتا تھا آج ہزاروں کی تعداد میں ہونگے.

جب سے ہمارے مسلح اور سیاسی تنظیمیں ملکر ایک اتحاد کا حصہ بنے ہیں، اس سے بہت ہی پہلے ہمارے مسلح تنظیموں کے عام سپاہیوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیئے مہر و محبت تھی اور ہر حوالے سے مدد کیا کرتے تھے، اگر دیکھا جائے تو ہماری نظر میں ایک زندہ مثال ہے کہ خضدار زہری کے علاقہ تراسانی میں دونوں تنظیموں کے ( بی ایل اے کے کمانڈر شہید دلجان اور بی ایل ایف کے کمانڈر شہید بارگ جان) کمانڈروں نے دشمن کے ساتھ بہادری سے جنگ لڑ کر حکمت عملی کے ساتھ دشمن سے لڑتے جام شہادت نوش کیا اور بلوچ قوم کو ایک واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ ہم ایک ہیں، ایک تھے اور ایک ہی رہیں گے۔

اسکے بعد ہماری تین مسلح تنظیموں، لشکر بلوچستان یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور بلوچ ریپبلکن آرمی نے بھی اتحاد کرلیا. وہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی اپنے اپنے نام سے جانا جاتا ہے لیکن ان سب کا منزل ایک ہے اور اب وہ ایک کاروان کے مسافر ہوکر بلوچ قومی تحریک کو آگے لے جانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑینگے.

اگر دوسری طرف دنیا میں دیکھا جائے تو ایسے جہد کار جو اپنے عوام کے لیے ایمانداری اور مخلصی کے ساتھ اپنا جدوجہد آگے لے جا ر ہے ہوں، اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت غلام نہیں بنا سکتی یا تقسیم کرکے ان کی طاقت کو کمزوری میں بدل نہیں سکتی اور اس طرح کے آزمائشوں سے مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ ذکر چل رہا ہے ہماری قوم کے اتحاد کی تو جس طرح بڑی کامیابی کے ساتھ اتحاد ہوا، اب اسے برقرار رکھنا ہمارے اور ہمارے تنظیموں کا قومی فرض بنتا ہے اب اتحاد کے بعد ہمیں بہت سے چیزوں کی خیال رکھتے ہوئے قومی جہد کو اگے لے جانا ہوگا، جہاں تک میرا خیال ہے دو ایسے چیزیں ہیں ہرخاص و عام دوست کو ان کا خیال رکھنا چاہیئے، وہ ہیں برداشت کرنا اور دوسرا جذبات پر قابو رکھ کر ایک دوسرے کا باہمی احترام کرتے بکھرنے سے خود کو بچائے رکھنا کیونکہ جذباتی پن انسان کی عمر بھر کی جو محنت ہے اس محنت کو ایک منٹ کے اندر ختم کر سکتی ہے. ہیرا کتنا قیمتی ہے اسی طرح برداشت انسان ایک کو ہیرا بنا دیتا ہے۔

اتحاد کی ایک مثال ہمارے لیے ویتنام ہے جس پر چین نے1011کے دور میں اپنا قبضہ جما کر ویتنام کی قدرتی وسائل لوٹنا شروع کیا، ویتنامی مخالفت کرتے رہے، جب چین معاشی حوالے سے بہت کمزور ہوگیا تو ایک معاہدے کے تحت ویتنام کے کچھ شہر فرانس کے حوالے کردیئے گئے اس وقت ویتنام کے عوام خود غرض اور دنیا سے نا واقف تھے۔

1664 میں دو فرانسی کمپنی قائم ہوئیں ایک کا مقصد ویتنام کے مذہب میں مداخلت کرنا اور دوسری فرانس پر زور دے کر ویتنام پر قبضہ کرنا تھا، فرانس کے بعد امریکہ نے بھی ویتنام پر قبضے کی کوشش کی اس وقت ویتنامیوں میں اتحاد نہ تھا، ویتنامی چین کے ایک انقلابی لیڈر سے متاثر ہو کر پورا عوام یکسر قبضے کے خلاف ہو گیا، قابض کے خلاف اعلانِ جنگ کرکے اپنی آزادی حاصل کرکے آج آزادی ترقی اور خشحال زندگی بسر کررہے ہیں.

دی بلوچستان پوسٹ : اس مضمون میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔