حئی سے ریحان تک – بیرگیر بلوچ

397

حئی سے ریحان تک

تحریر: بیرگیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

حئی سے ریحان تک زندگی نے وہ سیکھا، جو نا سمندر کی گہرائیوں تلک میسر، نا حیات کی تلاش میں ممکن اور نا ہی جسے ستاروں کے داستانوں میں سنا ہو۔ دونوں نے سکھایا کے زندگی ایسے جیو کے موت پر افسوس نہ رہے، انہوں نے سِکھایا کے موت ایسی ہو کے جو زندگی گذاری اس پر افسوس نہ ہو، انہوں نے سِکھایا کے وقت آن پہنچنے پر اپنے مقصد کی خاطر جان سے بھی گزر جاؤ، انہوں نے سِکھایا کہ جہد کے رستے میں ہر کام خود کرو، خود آگے بڑھو، خود محنت کرو، خود ٹارگٹ کو پہنچو اور جب وطن مادر کی راہ میں جہد لہو کا تقاضہ کرے تو بلا جھجک اس پر عمل پیرا ہونے کے لیے تیار رہو۔

حئی کہتا تھا “میں کیوں کسی اور دوست کو کہوں کہ یہاں پر دشمن پے وار کیا جا سکتا ہے، جب کے میں خود کام کا حصہ ہوں۔” ریحان سِکھا گیا کے جہاں دشمن پر وار کرنے کا سوچتے ہو، وہاں تک جانا کس قدر آسان ہے۔ حئی بچپن سے جوانی پھر شہادت اور اب تک ساتھ رہ کر ہر لمحہ سِکھاتا گیا۔ ریحان چار سال پہلے ایک کام کے سلسلے میں فون پر رابطہ کرکے سنگتی کے دروازے سے داخل ہوکر رہنما بن گیا۔

جہد کے اس سفر میں کئی ایسے دوست جدا ہوگئے جن سے کبھی نا ملا نا گفتگو ہوئی، مگر ہر ایک سے سوچ و نظریئے اور احساس کا رشتہ بندھا رہا اور ہر ایک کی جدائی نے روک کر لمحوں میں افسردگی کی چاشنی بھردی۔ انہی احساس، نظریہ و فکر کے سنگتوں میں ایسے دوستوں سے بھی مراسم رہے، جو اپنے کام، اپنے مخلصی، اپنے زمہ داری اور اپنے گفتگو سے اپنے حیات میں ہی آپ کو اپنا گرویدہ بنا دیتے ہیں۔

ایسے ہی دوستوں میں سے پہلا دوست سنگت حئی، جسکے سنگتی نے مجھے یہاں تک لایا، جس کے بہادری نے مجھے قائل کیا جس کے کام کرنے کے طریقے نے مجھے ہمیشہ حوصلہ بخشا، میں نے بہت پہلے ایک آرٹیکل میں ذکر کیا تھا کہ حئی میرے لیئے وہ ساتھی رہا ہے، جس کے ساتھ موت سے بھی ڈر نہیں لگتا تھا۔ ریحان وہ سنگت ہے جس نے سکھایا کے مر کر بھی دشمن کو ہرایا جا سکتا ہے۔

اس سفر کے دوران ہر وہ لمحہ جب آپ کا قریبی ساتھی آپ سے جدا ہوجائے، وہ لمحہ بیان و گمان کے پار ہوجاتا ہے، وہ الفاظ نہیں ملتے آپ کو جو آپ اپنے ساتھی کے لیئے محسوس کرتے ہو، وہ لمحے آئینے کی مانند آپ کے سامنے آن کھڑے ہوتے ہیں، تب بھی آپ اس درد کو لفظوں کے رستے قطعی طور پر بیان نہیں کر سکتے، وہ پل جو ان ساتھیوں کے ساتھ کٹے تھے، وہ احساس، وہ خوشی، وہ قہقہہ، الفاظ کو ساگر کے لہروں سے لڑ کر بھی چھڑا لو تب بھی وہ ذکر ادھورا رہ جائے گا۔

میں کبھی ضیاء کو بیان نہیں کر سکا
میں کبھی اس حئی کو بیان نہیں کر سکا، جسکے ساتھ میں نے زندگی جیا ہے
میں کبھی امتیاز کے مہربان لفظوں کو پنے پر اتار نہیں سکا
نا میں کبھی جاوید کے قہقہے کو سنا سکا
میں کبھی سلیمان کے میٹھے الفاظ کو بیان نہ کر سکا
اور نہ کبھی امیر کے محبت بھرے مجلس کو لکھ سکا
نہ ہی کبھی صدام عرف عرفان کے گفتگو کے ان لمحوں کو بیان کر سکا جس کے قہقہوں میں سفر آسان ہوتا رہا

ایسے ان گنت ساتھی جو سفر کے راہی رہے، لمحہ بہ لمحہ انکی جدائی نے جو درد دیا ہے، وہ بس اس منزل تک پہنچ نے پر مکمل ہوگا یا تو ہم لڑ کر مرینگے یا پھر اس روشن صبح تک چلینگے جس کا وعدہ ان شہدا سے کیا ہے۔ اس کے علاوہ کچھ بیان کرنا ان ساتھیوں کے متعلق وہم و گمان سے باہر ہے۔

جس قدر ان ساتھیوں کے جدائی نے غمزدہ کیئے رکھا ہے، اس سے بڑھ کر ہر ایک ساتھی کے قربانی نے اس جزبے، اس حوصلے کو اور اڑان بھرنے میں سہارا دیا ہے۔ انگنت انمٹ ساتھیوں کی قربانی و چنا ہوا رستا تحریک سے ہر لمحہ لہو کی مانگ کی ہے اور جہاں لہو کی مانگ ہو وہاں جان کی پروا نہیں کی جاتی۔

ایسا ہی ہوا جب تحریک 2011 میں دشمن کے تیش و غضب کا شکار ہورہا تھا، جہاں ساتھی اٹھائے اور لاشوں میں تبدیل کیئے جا رہے تھے، جب دشمن بدمست ہوکر گلی کوچہ بیابانوں کو جلا رہا تھا، تب اس خوف کے عالم میں سینوں میں پنپتی آگ کو بھڑکانے کے لیئے شہید درویش سامنے آیا اور لہو کی چنگاری سے آگ کو بھڑکا دیا، اپنے مقصد، اپنے منزل میں کامیاب ہونے، اپنے سنگتوں کو راہ دکھانے، چراغ روشن کرتے ہوئے دشمن پر قہر بن کر ٹوٹ پڑا۔

اسی طرح اس بار اپنوں کے کرم نوازی سے تحریک سرد خانوں کی نظر ہو رہی تھی، رکاوٹیں مشکلات کھڑے کر دیئے گئے، کام روکا جانے لگا، ایک دوسرے کے گریبان میں جھانکنے لگے، جہد فیسبک کی نظر ہونے لگا تھا، دوسرے جانب دشمن اپنے حواریوں و زر خریدوں کے سہارے گھروں کو کھنڈرات میں بدلنے لگا تھا، عالمی سطح پر چائینیز نے اپنے پلید ارادوں کی تکمیل کے لیے بلوچوں کے لہو کا سودا لگانے بھی اسی سرزمین پر آن پہنچا اور اس قبضے کو دوام بخش رہا تھا اسے گہماگہمی کی حالت میں ریحان سر بہ کفن دالبندین کے میدان میں اتر کر دشمن کے خلاف کارروائی میں اپنے سر کا سودا لگا کر تحریک و جہد میں ایک نئی روح پھونک دی، تاریک اندھیرے کو سفر کے نشان دیکھا گیا۔

سنگت ریحان کے جانبازی، ہمت و حوصلہ اسکے لفظوں، اسکے آنکھوں میں بخوبی دیکھا جا سکتا ہے، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ آنکھیں میسر ہوں، جو اس فیصلے کے اثرات، دشمن کے شکست بھرے آنکھوں میں دیکھ سکے، انا، ہٹ دھرمی، بغض سے پاک ذہن رکھنے والا شخص ضرور یہ جانتا سمجھتا ہے کہ جو فیصلہ ریحان نے سوچ سمجھ کر لیا، وہ تحریک کے لیئے کس قدر مفید و دشمن کے خلاف جنگی حکمت عملی کا کامیاب کاروائی رہا۔

ہم میں سے ہر ایک ساتھی اپنے کام، اپنے زمہ داری، اپنے آخری سانس تک لڑنے کا عہد کر چکا ہے، اسی طرح ریحان بھی اپنے آخری سانسوں کا سودا دشمن کو یہ پیغام دینے کے لیئے لگایا کے یہاں ہم میں سے ہر وہ ساتھی تمہارے شکست کا سبب بنے گا جس نے یہ رستہ اختیار کیا ہے۔ ریحان سمت سب کو معلوم تھا کہ یہ کاروائی آخری نہیں نہ ہی اسکے بعد دشمن یہاں سے دوڑ بھاگ جائے گا۔

تحریکیں ایسے مشن کا انتخاب ہی اس لیے کرتے ہیں کہ دشمن کو خوفزدہ کرکے شکست زدہ کرکے کمزور کیا جائے، تحریک اپنے سفر میں ہر وہ عمل کار آمد بناتا ہے، جس سے دشمن کو نقصان اور تحریک کو فائدہ پہنچے، ہر شہید سنگت نے اسی غرض سے قدم بہ قدم مشکلات کو مسکرا کر اس لیئے قبول کیا کے تحریک کو دوام بخشا جائے۔

ریحان نے مجید برگیڈ کا انتخاب کرکے وطن مادر سے اپنے محبت کا اظہار و دشمن سے نفرت کا جو پیغام دیا ہے، ایسے ہی عظیم فیصلوں ور ایسے عظیم قربانیوں کے بدولت ہی آج دنیا کے نقشے پر آزاد ریاستیں قائم ہوئے ہیں۔ ریحان کی قربانی دشمن کے لیے خوف کی علامت ہوگا اور یہ خوف اسے بلوچ کے ہر فرزند سے لاحق رہے گا۔ ریحان کی قربانی سے تحریک میں جو جان آئی ہے، ریحان کی قربانی سے لوگوں میں جو امید ابھر آئی ہے، ریحان کی قربانی سے ماؤں کے جو حوصلے بلند ہوئے ہیں، یہ سب شاید اس دور میں بیٹھ کر باتیں بنانے بیان بازیوں سے نہیں ہوپاتا۔

ریحان نے اس جنگ کے کامیابی میں ارادوں کو اس قدر مضبوط کردیا ہے، جو اب نہ کسی سردار میر و سرکار کے بس میں ہے کے ایسے مظبوط ارادوں کا رستہ روک سکے۔ باقی رہی بات (کچھ لوگوں کے مطابق) اس لمحہ بھر کامیابی کی۔ تو اسکے اثرات اب دشمن کے خلاف اٹھنے والے ہر قدم کی رہنمائی اس وقت تک کرتے رہیں گے جب تک شکست دشمن کا مقدر نہ بنے

ہر اس مسافر کا رہنما ریحان بنے گا جو اس چنے ہوئے رستے پر دشمن کے خلاف مورچہ زن ہوگا
ہر اس لفظ کا استاد ریحان ہوگا جو دشمن کے خلاف لکھا جائے گا
ہر اس عمل کا کرداد ریحان ہوگا جو دشمن کے تابوت میں کیل کی مانند ٹھوکی جائے گی
زندہ ریحان سے زیادہ خطرناک وہ ریحان ہوا جو دشمن کے خلاف دالبندین کے میدان میں اسکے شکست کا اعلان کرکے فنا ہوگیا
ریحان دشمن کے لیے شکست کی علامت ہے کیونکہ وہ پیدا ہی دشمن کو شکست دینے کے لئے ہوا تھا

ریحان ہر دور میں آتا رہے گا جب تک استاد اسلم جیسے رہنما جہد کی رہنمائی کرتے رہیں گے، جس کے سائے میں ہر سنگت درویش اور ریحان کے طرح دشمن پر قہر بن کر ٹوٹتا رہے گا کیونکہ سنگت ہمیشہ بھڑک بازی و لفظی کردار نہ بننے کا درس دیتے ہوئے عملی حوالے سے کام کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔

ریحان آتا رہے گا، جب تک اماں یاسمین جیسے بہادر ماں اپنے بیٹوں کی اسطرح تربیت کرینگے کے وقت رخصت وہ خود کہے کے دل چھوٹا نہ کرنا عظیم تر ہوتی ہیں مائیں جو مادر کا درد محسوس کرکے اپنے لخت جگر کو فنا ہونے کے لیے تیار کرکے روانا کرتی ہیں۔

سنگت ریحان نے زندگی کے قلیل عرصے میں ہی ہر دل میں وہ جگہ بنائی کے انکے حیات میں ہی انکے اپنائیت کا احساس ہوجاتا تھا۔ ریحان سے کئی بار باتیں ہوتی رہیں، ہر بار گفتگو کا اختتام قہقہوں پر ہوا کرتا تھا۔ اکثر پوچھتا تھا شادی ہوا کے نہیں اکثر اس ٹاپک پر کھچائی ہوا کرتا تھا۔ پھر ایک دن اچھے خاصے تیاری کے ساتھ مبائل پے مزاق کرنے لگا کے میں نے تو منگنی کرلیا پر آپ ابھی تلک انتظار کرتے رہے۔اکثر گفتگو مزاق و شغل میں مکمل ہوجاتا۔

سنگت کے شہادت سے قریباً پانچ چھ دن پہلے اس سے بات ہوئی، تنظیمی صورتحال پر کچھ باتیں ہوئیں، میں نے سنگتوں کے ایک میسج گروپ میں سامان کی کمی کو لیکر کہا کے ساتھی تو لگے ہوئے ہیں کام کے بھاگ دوڑ میں مگر سامان کی کمی ضرور ہے۔ تو ریحان نے مسکراتے ہوئے کہا جہاں دوست کام کرنا چاہتے ہیں وہاں سامان نہیں اور یہاں سامان پڑے ہوئے ہیں پر دوست ہیں کے چھٹی سے واپسی کا نام نہیں۔ اس دن کچھ زیادہ باتیں نہیں ہوئی پھر اسکے بعد ریحان سے کبھی گفتگو نہ ہو سکا۔

ہاں اتنا یقین ہے کہ ریحان یہاں بھی تمام ساتھیوں کے لیئے یکساں مہربان رہا ہے، وہ وہاں بھی خود سے پہلے جانے والے دوستوں کے دیوان کا مہربان سنگت بنا ہوگا۔

تصوراتی خیالات میں سے ایک کثرت سے یاد آنے والا خیال یہ رہتا ہےکہ یہاں سے جانے والے ساتھی کس قدر خوش نصیب ہیں کہ کامیاب بھی ہوکر جاتے ہیں اور ان سنگتوں کے محفل کا بھی مہمان ہوجاتے ہیں جو اسی راہ پر چل کر فنا ہوگئے۔ وہاں روز دیوان ہوتا ہوگا، وہاں روز محبت کے سائے میں دوست ایک دوسرے سے ملتے ہونگے وہاں وہی قہقہوں کی گونج ہوگی، جو شام ہوتے ہوتے سارو کے چاندنی رات کا نظارہ ہوتا
جو پارود کے ٹھنڈی ہوا کا رستہ ہوتا
جو وادی اے مشکے کے مہربان فضاؤں کا آغاز ہوتا
وہاں روز وطن زادوں کا یہی مشغلہ ہوگا

ہم کبھی نہیں ہارینگے ہم دونوں صورتوں میں جیتینگے کیونکہ ہم نے دونوں صورتوں کو اپنے کامیابی سے جوڑا ہے، ہم یا تو شہید ہوکر دشمن کے موت کا سبب بنتے ہیں یا پھر آجوئی تک سفر کرکے کامیاب ہونگے۔

ریحان کے قربانی وقتی نہیں اور نا ہی ایسے قربانیوں کی کامیابی کا چراغ کچھ ہی پلوں میں نظر آتے ہیں، یہ وہ قربانیاں ہیں جو جہد کے ہر گزرتے دن کے ساتھ دشمن کو شکست دیتا رہے گا اور قوم ایسے ہی عظیم سنگتوں کی قربانیوں کے نتائج آجوئی کی صورت میں ضرور آجوئی سے پہلے دیکھے گا۔