شہید ریحان جان کا کاروان – شاھبیگ بلوچ

170

شہید ریحان جان کا کاروان

شاھبیگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کوئی بھی عمل (مثبت یا منفی) بغیر کسی مقصد کے حصول کی خاطر نہیں کیا جاتا۔ اور شاید ہی دنیا میں ایسا کوئی کردار، جدوجہد یا عمل رونما ہوا ہو جو بغیر کسی مقصد کے حصول کی خاطر جاری رہا ہو یا اسکی بنیاد رکھی گئی ہو۔ دنیا کی تاریخ چاہے سیاسی ہو، ادبی ہو، مذہبی ہو، انقلابی تبدیلیوں کی ہو یا پھر انسانوں کی آزادی کی تاریخ بغیر کسی مقصد کے جدوجہد یا قربانیاں نہیں تھیں۔ ان تمام تاریخی تحریکوں میں مختلف ادوار میں مختلف طریقوں سے جدوجہد کی گئی ہے کہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنایا جاسکے اور لوگ اس دنیا میں امن، چین، سکون، سیاسی و مذہبی آزادی سمیت اپنی آزاد ریاستوں میں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گذار سکیں۔

آج دنیا جس شکل میں ہمارے سامنے وجود پذیر ہے اور دنیا کی آزاد ملکوں اور قوموں کو جس طرح کی آسائشات میسر ہیں، وہ ایک دن، ایک ہفتے، ایک مہینے یا ایک سال کی محنت نہیں بلکہ صدیوں کی قربانیوں، محنتوں، دیدہ دلیری، معاشرتی ؤ سماجی ارتقائی عمل سے گذر کر طے کیئے گئے ہیں۔ انسانی سماج ہمیشہ سے ہی اپنے آپ انقلاب برپا کرتا رہا ہے اور انقلاب ہنوز جاری و ساری ہے۔ سماجی ترقی کے وہ عنصر جو اس ترقی کے عمل کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں، اتنی ترقی کرنے کے بعد بھی ہمیشہ اس سوچ میں مبتلا ہیں کہ اس سے بڑھکر اور بہتر طریقے سے کس طرح اور کیسے انسانی فلاح کیلئے کردار ادا کیا جاسکے۔ ان تمام افراد کا تعلق دنیا میں انقلاب برپا کرنے والے قبیل سے ہے۔ کوئی سائنسی تبدیلی لانا چاہتا ہے، کوئی سیاسی حوالے سے تبدیلی کیلئے کوشاں ہے، تو کوئی سماجی برابری کے حوالے جدوجہد کرنے پر یقین کرتا ہے۔ اسی قبیل سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان بلوچ لیجنڈ شہید ریحان اسلم کی صورت میں بلوچستان میں پیدا ہوا۔

شہید ریحان اسلم جنہیں دنیا ۱۱ اگست ۲۰۱۸ کے بعد سے جانتی ہے، اس سے قبل انکے زندگی کے ۲۲ سال کس طرح گزرے انہوں نے کس ماحول میں سیاسی و مزاحمتی شعور و علم حاصل کی۔ وہ کس طرح اس عمر میں شعوری حوالے سے اتنے پختہ ہوئے کہ اپنے جسم پر بارود باندھ کر دشمن پر حملہ آور ہوئے اور رہتی دنیا تک بلوچ قوم سمیت دنیا کے تمام محکوم اقوام کیلئے بہادری، دلیری، ایمانداری، شعوری پختگی اور عظمت کے مثال بن گئے۔ چونکہ شہید ریحان جان استاد اسلم کے فرزند تھے تو انکی شعوری و علمی پختگی کی حدوں کا تعین کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ وہ اُستاد اسلم کے فرزند ہونے کے ساتھ بی ایل اے کے مجید برگیڈ کا بھی حصہ تھے، جو کافی خطرناک اور دشمن پر قیامت کی طرح برسنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور مجید برگیڈ کے ساتھیوں کی تعلیمات ہی تھے، جنہوں نے ریحان جان کو اس طرح شعوری حوالے سے پختہ کیا کہ انہوں نے اپنی نوجوانی کو اس مقصد کی خاطر قربان کردیا کہ بلوچ اپنی سرزمین پر کسی بھی طرح کی غیر ملکی مداخلت برداشت نہیں کرینگے۔ شہید ریحان جان کا پیغام بہت ہی واضح تھا کہ دشمن قوتوں کو بلوچ نوجوانوں کا سامنا ہر محاذ پر کرنا پڑیگا۔

شہید ریحان جان کی شہادت کے بعد جس طرح کا ماحول پیدا ہوا، اس سے یہ بات واضع طور پر دکھائی دےرہی تھی کہ چین اب پاکستان سمیت ان تمام قوتوں کو (بلوچ آزادی کی جدوجہد میں شامل مفاد پرست ٹولے ) کہ جن سے ڈیل کرچکا ہے، ان پر دباؤ ڈالےگا کہ بلوچستان میں چائینیز انجنیئروں کی سلامتی یقینی بنائی جائے۔ لیکن پاکستان سمیت ان تمام منافع خور اور مفاد پرستوں کو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیئے کہ ریحان جان سمیت بلوچستان کے تمام شہدا اور لاپتہ افراد کی قربانیاں کسی ایک فرد کی ذاتی خوائشات یا پس پردہ معاہدات کے خاطر نہیں دی گئیں، بلکہ ایک بہتر مستقبل اور آزاد بلوچ وطن کے قیام کی خاطر دی گئی ہیں۔