الوادع میرے دوست ۔ مراد بلوچ

940

الوادع میرے دوست

تحریر : مراد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“رخصت اف اوران سنگت” یہ الفاظ میرے اس دوست کے ہیں، جو اپنے شہادت سے ایک دن پہلے کہہ کرچلے گئے، کیا پتہ تھا وہ ہمیشہ کیلئے ہم سے رحصت کرکے جارہاہے۔ دنیا ایک فانی جگہ ہے، جہاں ہرکوئی آتا ہے جانے کیلئے لیکن کچھ ایسے انسان ہوتے ہیں جو خودتوچلے جاتے ہیں لیکن دوسروں کیلئے درد کہ اتنے گہرے زخم چھوڑ جاتے ہیں، جو کبھی بھرنے کا نام نہیں لیتے ہیں۔ اگر کسی کو درد دیکھنا ہے تو وہ مہلب اور سمی سے ملے، جو کس درد اور کرب سے گُذر کر بڑے ہوئے ہیں۔ جب ان کے کھیلنے اور کودنے کے دنوں میں ان کے والد کا سایہ ان سے چھین لیا گیا ہے۔ اگر کسی کو درد کے قصے اور اپنوں کے جداہونے کا قصہ سُننا ہے، تو وہ مشکے کی ماس عابدہ سے ملیں، جنھوں نے اپنے جوان سال بیٹے فرھاد جان اور معراج جان کی خون سے لتھڑے لاش اُٹھائے ہیں نا صرف اپنے بیٹوں کا بلکہ اپنے شوہر شہید رحمت کا بھی لاش اٹھایا ہے۔

بلوچ سرزمیں کی ہر گلی اور ہر میدان میں ہزاروں ایسےدرد بھرے قصے ہیں، جنھیں شاھد قلم بند کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ جس طرح شہید شہیک جان، شہید سردو جان، فدا جان اور بہت سے ایسے دوست ہیں جو خود اپنے آپ کو اپنی مٹی کا فرض نبھانے کی خاطر قربان کرچکے ہیں۔ اور اپنے دوستوں کے دلوں میں اپنی جدائی کا گہر ا زخم چھوڑے کر چلے گئے ہیں۔ آج بھی ایک ایسے دوست کی جدائی کے گہرے غموں نے مجھ جیسے نا چیز کو کچھ لکھنے پہ مجبور کردیا۔ شاہد ان کی مفلسی ایمانداری اور عشق وطن کے ساتھ انصاف نا کرسکوں۔

جس دوست کے بارے میں لکھنا چاہتا ہوں، وہ دوست شہید حسین بلوچ تھے، جنھیں میں پیار سے چیسو کبھی گنوخ کبھی واکیا پکارتا تھا۔ غالباً دوھزار پندرہ کو بالگتر میں پہلی ملاقات ہوئی۔ آپ جیسے دوستوں کی پہچان یہی ہے کہ پہلی ملاقات میں اپنے پیار اور مہروانی سے ایسا محسوس کراتے ہیں کہ سالوں سے ایک دوسرے سے واقف ہیں۔ پہلی ملاقات کہ بعد اکثر پارٹی کاموں سے میں اور آپ ہمراہ رہے ہیں۔ تھوڑی سے مدت میں آپ نے اپنے ایمانداری اور جفاکشی کی وجہ سے بہت بڑا مقام پایا۔ ہر کام میں باقی دوستوں سے اگے تھے۔ ہم جیسے بےعمل لوگوں کا کام ہے، مخلص اور جفا کش دوستوں کی کردار کُشی کرنا، چیسو تیرے بہت سے گناہ گار ہیں جن میں میں بھی شامل ہوں، کیاکیا تہمتیں آپ پر نہیں لگائے ہیں۔ لیکن آج آپ نے ہم سب کو شرمندہ کردیا۔

وہ دوست یقیناً آج آپ کی تعریف کرتےہیں لیکن اپنے ضمیر میں اپنے آپ کو ملامت کردیتے ہیں۔ آپ کی سگ اور برداشت کو دیکھ کر مجھے شہید سردو یاد آتا تھا، ان پر بھی دوستوں نے کیا کیا الزام نہیں لگائے لیکن انھوں نے آپ کی طرح اپنے بہادری اور کردار کی وجہ سے اپنے مخالفین کو مجبور کردیا، جو آج ان کی بہادری کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے۔ دنیا میں بہادر اور نڈر لوگوں کا یہی خوبی ہے، جو اپنے جواب کو اپنے کردار اورعمل سے واضح کردیتے ہیں۔

چیسو وہ دن مجھے آج بھی یاد ہے۔ جب ہم دشمن کے گھیرے میں تھے، ہر طرف مارٹر کے گولے اور گولیاں بارش کی طرح ہم پر برس رہے تھے۔ تو دوستوں نے آپ کو نکلنے کی تلقین کی، آپ نے یہ کہہ کر سب کو خاموش کردیا کہ میں کس منہ سے جا کر باقی دوستوں کو یہ کہوں گا کہ میں بچ گیا ہوں، باقی دوست مارے گئے ہیں۔ لیکن آج آپ اور اُستاد دارو خود شہید ہوگئے ہیں۔ لیکن ہم آپ لوگوں کیلئے کھچھ نہ کرسکے۔ اس بات کی زندگی بھر پشیمانی رہے گی۔

آج آپ کی کمی ہر دوست کو محسوس ھوگا جو آپ کے ہمراہ رہ چکے ہیں۔ تین سال کی اس چھوٹی سے ہمراہی میں مجھے ہردُکھ درد تکلیف میں سب زیادہ آپ یاد آو گے۔ کہتے ہیں دنیا میں ماں جیسا مہربان اور کوئی نہیں ہوتا، لیکن آپ کی مہروانی کے سامنے شاید ماں بھی بے بس ہوجائے، کبھی سفر میں وہ سرد اور یخ بستہ راتیں، جب نیند سے اُٹھتے تو آپ کو اپنے قریب سے آگے لگتے دیکھتے۔ آج آپ کی جُدائی کی خبر سُن کر دل خون کی آنسو روتا ہے۔ آپ وطن کی عشق میں بالکل فرھاد ہوچکے تھے جس طرح وہ اپنے شیرین کیلئے پہاڑ توڑ کر راستہ بناتا ہے۔

اسی طرح آپ دنیا کے تمام عیش وعشرت سے بیاگانہ تھے، صرف اپنے مقصد سے دن رات لگے رہتے تھے۔ آپ دنیاوی عیش وعشرت کو یہ کہہ کر چھوڑتے تھے کہ یہ آزادی کی جدوجہد ہے، ہمیں سب کچھ سہنا ہے، اپنے مقصد کیلئے کسی کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ آپ بےتعلیم ہوں۔ واقعی بقول نواب صاحب پاکستانی تعلیم نظام صرف انسان کر روبوٹ بنا سکتا ہے، تعلیم یافتہ نہیں۔ بلوچ پیدائشی تعلیم یافتہ ہیں۔ اگر کسی کو یقین نہیں ہوتا تو وہ میرے چیسو کو ایک بار دیکھ لیتا، تو اُسے یقین ہوجاتا۔ آپ جیسے مہروان دوست کی جدائی کے خلاء کو صرف آپ کا مقصد آذادی لےسکے گا۔

کیلکور کی وہ سرد راتیں آج بھی مجھے یاد ہیں، جب سب دوست اپنی گرم کمبلیں اوڑھے سوئے ہوئے تھے۔ جب رات کی درمیانی حصے میں نیند سے اٹُھے تو آپ کو ایک چھوٹی سی چادر میں اوڑھتے ہوئے سوتے دیکھا، تو مجھے اُس دن آپ کی مخلصی اور ایمانداری کا اندزہ ہوگیا۔ چیسو ہم تم کو مستقبل کا سردو اور فدا دیکھنا چاہتے تھے لیکن؟ یہ آپ کے بچھڑنے کا وقت نہیں تھا، آپ کو مزید زندہ رہنا تھا، مزید مستقل مزاجی سے دشمن پر وار کرنا تھا۔ آج صرف آپ کے یادوں کے سائے میں درد بھری زندگی گذار رہے ہیں۔ چیسو آپ نے ریاستی الیکشن کو ناکام کرنےکے جو وعدے کیئے، وہ ایک یاد بن کر میرے دل میں رہ رہے ہیں۔ آج زیردان کی وہ ریت آپ کیلئے خون کے آنسو رو رہا ہے، جو کبھی آپ کا گذر گاہ رہا تھا، آج زامران کے خوبصورت پہاڑ اور ندیاں آپ کی جُدائی میں بالکل خاموش ہوگئے ہیں، آج گوران اور بالگتر آپ کی جدائی میں پھوٹ پھوٹ کر رو رہے ہیں، آج آپ کی ہمراہ آپ کےجدائی کے غم سے نڈھال ہوچکے ہیں۔ آج ہم دوست گوران میں دشمن پر آپ کی بندوق کی گن گرج سننا چاہتے ہیں، جو آپ نے دشمن پر بارش کی طرح برسائے۔ ابھی آپ کے زخمی ہونے کی پریشانی میں تھے کہ آپ ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔

آپ اسی سال دو بار میدان جنگ میں زخمی ہوئے تھے لیکن آپ کی پیروں میں لرزش نہیں آئی، آپ مزید کندن بن چکے تھے عشق وطن میں۔ ویسے آزادی کی تحریک میں آپ جیسے مخلص دوست کی قربانی اور بہادری رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیگی۔ آپ کے بہادری کے قصے تاریخ میں سنہرے الفاظ میں یاد رکھے جائیں گے۔ آپ کی جتنی تعریفیں کریں شاید کم ہیں۔ چیسو ایک ہمت بہادری جُرات اور ایک حوصلے کا نام تھا۔ آخر میں میرے مہربان دوست چیسو کوان کی شاندار جدوجہد کو سلام۔