تقدیر اور ہم ۔ حاجی بلوچ  

544

تقدیر اور ہم

تحریر۔ حاجی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

یہ عقیدہ کہ ہر شے کی تقدیر پہلے سے مقرر ہے، اور نوشتہ تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی، پرانے قوموں میں صدیوں تک رائج رہا۔
حتیٰ کہ حکمائے یونان بھی کسی نہ کسی شکل میں تقدیر کے قائل تھے،Epicurus )غالباً پہلا ممتاز فلسفہ ہے، جس نے دیمقراطیس کی پیروی کے باوجود انسان کو اپنے فعل کا مختار ٹہرایا۔

اسلام کا رجحان بھی تقدیر کی جانب ہے، چنانچہ قرآن مجید میں متعدد آیاتیں ایسی ملتی ہیں، جن سے تقدیر کے حق میں استبناط کیا جاتا ہے، مثلاً سورہ یونس میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ “اگر اللہ تم کو کوئی تکلیف پہنچادے، تو بجز اس کے اور کوئی تکلیف کو دور نہیں کرسکتا، اور اگر تم کو کوئی راحت پہنچانا چاہے تو اس کے فضل کا کوئی ہٹانے والا نہیں؛ بلکہ وہ اپنا فضل جسے چاہے مبذول فرمادے، اور وہ بڑی مغفرت بڑی رحمت والا ہے۔”

امام احمد، ابو داود، ابن ماجہ تینوں ابن دیلمی کا قول نقل کرتے ہیں، “ایک روز میں امی ابن کعب کے پاس گیا اور کہا میرے ذہن میں تقدیر کے بارے میں چند شکوک پیدا ہوئے ہیں، لہٰذا آپ کوئی حدیث بیان کریں تاکہ اللہ میرے شکوک رفع کرے، انہوں نےکہا “اگر تم سونے کا پہاڑ بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرو، تو بھی اللہ اس وقت تک قبول نہیں کرے گا، جب تک تم تقدیر پر ایمان نہ لاوگے۔”

تو میرا ایمان ہے تقدیر پر، لیکن ہر مصیبت کو ہم اپنا تقدیر سمجھ کر بیٹھ جائیں، اور مصیبتوں کو ختم کرنے کی محنت اور جہد نہ کریں، تو کبھی بھی مصیبتیں اور پریشانیاں پیچھے چھوڑنے والے نہیں، لوگ جب خیرات کرتے ہیں تو اس یقین پر کہ مصیبتیں ٹل جائیں، تو کیا ان کو تقدیر پر ایمان یقین نہیں؟

اگر اسلام کی کامیابی مسلمانوں کی تقدیر میں ہے تو آج پوری دنیا میں تبلیغ والے اسلام کی کیوں محنت کررہے ہیں؟ صحابہ کرام کی مقبرے دنیا کے کونے کونے میں ہیں کیوں؟َ کس وجہ سے اسلام کو فعال کرنے کی محنت اور جہد کرتے تھے؟ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی تقدیر پر تکیہ کر کے نہیں بیٹھتے تھے بلکہ اسلام کے لیئے محنت اور جہد کرتے تھے۔

ہر چیز کو حاصل کرنے کے لئے محنت شرط ہے، عام مسلمانوں کا روزانہ تجربہ بھی یہی ہے، وہ محنت کرتے ہیں تو اجرت ملتی ہے۔ محنت نہیں کرتے ہیں تو اجرت نہیں ملتی، کاشت کرتے ہیں تو فصل پیدا ہوتا ہے، اگر نہیں کریں تو فصل نہیں ہوتا۔

زرعی دور میں تقدیر کا منصب نے انسان کی مادی مجبوریوں کے باعث ایک نہایت جابر ایک نہایت مہلک عقیدے کی شکل اختیار کرلی، اس دور کے صاحب اقتدار طبقوں نے جن میں مطلق العنان بادشاہ اور ان کے آمرا اور روحانی پیشوا بھی شامل تھے، اس عقیدے کی خوب حوصلہ افزائی کی اور عقیدت مند عوام کو یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ تمہاری مصیبتوں کا ذمہ دار معاشرے کا سیاسی اور معاشی نظام نہیں ہے، بلکہ یہ ساری تکلیفیں تو ازل سے تمہاری قسمت میں لکھ دی گئیں ہیں اور کوئی طاقت اس نوشت کو بدل نہیں سکتا، لہٰذا صبر کرو اور قناعت کی زندگی اختیار کرو، کیونکہ حالات کو بدلنے کی کوشش کرنا نوشتہ تقدیر سے انحراف کرنا ہوگا۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا۔ جب تک ایک قوم اپنی حالت خود تبدیل نہیں کرتا، دوسرے اس کو تبدیل نہیں کرسکتے، اور جب تک ایک قوم اپنی حالات کو تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرتا، اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد اور نصرت حاصل نہیں ہوتا، یہ میرا ایمان اور یقین ہے۔

تو آج بلوچ قوم اور بلوچ علمائے کرام کو پاکستانی مرتد فوج کے غلیظ ہاتھوں سے بلوچ خواتین کو اغوا کر کے اپنے کیمپ منتقل کرنا، اور ان کی آبرو ریزی کرنا، اپنی جنسی خواہش پورا کرنا، اس کو ہم اپنی تقدیر سمجھ لیں اور چپ رہنے کی دوا لیں،تو ہمیں جان لینا چاہیئے ہماری حالت قیامت تک بدلنے والی نہیں۔

ایک واقعہ یاد آیا، حضرت عباس کہتے ہیں شام کو بنی عبدالمطلب کی ساری ہی عورتیں ایک ایک کر کے میرے پاس آئیں، اور ہر ایک نے ابوجہل کی بکواس پر مجھے ملامت کرتے ہوئے یہ کہا، تم نے آخر اس خبیث فاسق کی بات کیسے برداشت کرلی کہ وہ تمہارے خاندان کے مرد کی عیب جوئی کرتا رہا اور اس نے عورتوں کو بھی نہیں بخشا، بلکہ ان کے متعلق بھی زبان درازی کی اور تم سنتے رہے، اس کا مطلب تم میں غیرت نہیں ہے؛ تو عباس نے ان عورتوں سے کہا اگر آج کے بعد ابوجہل نے ایسا کہا تو میں ابوجہل کا خون کردونگا۔

آج پاکستانی مرتد فوج سرعام ہماری ماوؤں اور بہنوں کو اٹھا کر غائب کرکے ان کی عصمت دری کررہا ہے، کہاں گئی بلوچوں کی غیرت، کہاں ہیں وہ بلوچ جو غیرت کے بڑے دعوے کرتے ہیں، کہاں ہیں وہ بلوچ علماء جو اتنے بڑے ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (بزدلی شرم کی بات ہے) اور روبرو عزت و سربلندی کی علامت ہے) ایک بزدل شخص کی نہ کوئی عزت ہے اور نہ قدر و منزلت ہے ) تو ایک شخص بزدل ہو، اس کی کوئی عزت نہیں، اگر پوری قوم بزدل بن جائے تو اس کی کیا عزت و سربلندی رہے گی دنیا کے سامنے؟

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ جلد از جلد پاکستان کی غلامی سے بلوچ قوم کو آزادی عطاء کرے؛ اور ہماری مدد و نصرت کرے؛(آمین )