نوشکی کے تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں، بی ایس او

420
File Photo

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن نوشکی زون کے ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں نوشکی کے تعلیمی اداروں کی زبوں حالی کے حوالے سے کہا ہے کہ نوشکی کا سب سے اہم مسئلہ علاقے کے گھمبیر تعلیمی مسائل ہیں۔ نوشکی کا شمار بلوچستان بھر میں تعلیم کے حوالے سے اہم علاقوں میں ہوتا ہے لیکن نوشکی کے تعلیمی ادارے مکمل طور پر زبوں حالی کا شکار ہیں۔ بوائز ڈگری کالج نوشکی جس میں ضلع بھر کے طلباء تعلیم حاصل کرنے کی خاطر آتے ہیں لیکن کالج میں تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، کالج گذشتہ کئی سالوں سے کھنڈارت اور ویرانے کا منظر پیش کررہی ہے، کالج میں اہم مضامین کے اساتذہ کی کمی ہے جن مضامین میں ایف ایس سی اور بی ایس کے لئے پانچ اساتذہ کرام کی ضرورت ہے وہاں صرف ایک استاد مکمل ممضون پڑھا رہا ہے جبکہ دیگر اہم مضامین جیوگرافی اکنامکس سوشیالوجی جیولوجی اور کمپیوٹر سائنس کا ایک لیکچرار تک نہیں۔

ترجمان نے کہا کہ کالج ہاسٹل مکمل خستہ حال ہوچکی ہے اور طلباء کے رہائش کی قابل نہیں جسکی وجہ دوردراز کے علاقوں کے طلباء بازار میں کرائے کے کمروں میں رہائش پر مجبور ہیں۔ کالج کی عمارت مکمل طور پر تباہ حال ہے جو کسی بھی وقت خطرناک حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔

گرلز کالج نوشکی جو انرولمنٹ کے حوالے سے بلوچستان بھر میں دوسری پوزیشن پر ہے لیکن کالج میں اب تک سوائے زبانوں کے مضامین کے کوئی بھی مضمون میں لیکچرار تعنیات نہیں کیے گئے ہیں جبکہ کالج کا گرلز ہاسٹل تاحال تعمیر نہیں ہوسکا ہے اور ایلمنٹری کالج نوشکی کی عمارت تاحال تعمیر نہیں کی گئی ہے جبکہ کالج صرف چھ اساتذہ کرام کے زریعے چلائی جارہی ہے۔ طلباء کا اسکالرشپ بند کیا گیا ہے۔ نوشکی کے دو سو سے زائد سرکاری اسکول جدید تعلیمی سہولیات سے مکمل محروم ہیں۔ اکثر پرائمری اسکول سنگل ٹیچر چل رہے ہے جبکہ کئی اسکولوں میں اساتذہ کے تعنیاتی نہیں ہونے کی وجہ سے بند پڑے ہے ماڈل اسکول نوشکی شہر کا سب سے بڑا اسکول اور ماڈل کہلانے کے باوجود جدید تعلیمی سہولیات سے محروم ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ جب تک علاقے کے تعلیمی مسائل حل نہیں کئے جاتے، حقیقی حوالے سے ترقی کے دعوے نہیں کیے جاسکتے۔ نوشکی کے تعلیمی مسائل کو اجاگر کرنے اور حل کے لئے احتجاج کا لائحہ مل علاقے کے تمام سیاسی جماعتوں، طلباء تنظیموں اور تمام مکاتب فکر کے ساتھ مشاورت بعد طے کیا جائے گا۔ لیکن پہلے مرحلے میں تمام سیاسی طلباء تنظیموں سے ملاقات اور پھر احتجاجی لائحہ عمل ترتیب دی جائے گی۔