بی این پی کے آپشنز، انتخابات کے تناظر میں
قمبر مالک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچستان میں منعقدہ حالیہ انتخابات کے نتائج سے پیدا ہونے والی سیاسی صورتحال غور طلب ہے. سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بدستور اپنی آئینی حدود سے تجاوز کرنا اور حسب روایت انتخابات میں مداخلت نے جہاں عوام کی حق رائے دہندگی کو پامال کیا، اسکا پیشگی ذکر اپنی گذشتہ ایک تحریر، ” بلوچستان میں قبل از انتخابات دھاندلی” میں کر چکا ہوں. دوسری جانب بلوچستان کی عوام نے بھی اپنی رائے کے ذریعے جمہوریت مخالف قوتوں پر واضح انداز میں آشکار کیا ہے کہ وہ انکے مطلوبہ امیدواروں پر اپنی مرضی کے انتخاب کو ترجیح دیتی ہیں.
بلوچستان نیشنل پارٹی کی جن چند جیتی ہوئی نشستوں پر اپنی منظورنظر امیدواروں کو مسلط کیا گیا ان میں گوادر کی علامتی نشست این اے – ٢٧٢ کے علاوہ، وہ علاقے این اے – ٢٧١ ، ٢٧٠ ، پی بی – ٤٧، پی بی ٤٥ شامل ہیں جنہیں ایک عرصہ سے سرکاری ادارے شورش زدہ قرار دیتے آئے ہیں، ان علاقوں میں آباد لوگ سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں کا شکار رہے ہیں اور اسکی آبادی کا بڑا حصہ نقل مکانی پر مجبور ہوا ہے. ایسے علاقوں سے غیر مقبول امیدواروں کو جتوانہ بلوچستان کے حالات کو بہتری کی جانب لیجانے کی سرکاری دعووں اور ارادوں پر سوالیہ نشان ہے.
ان تمام سرکاری حربوں کے باوجود بی این پی کا بلوچستان کے سیاسی پس منظر پہ بلوچ اور بلوچستان کا نمائندہ جماعت کی حیثیت سے سامنے آنا، اس ایجنڈہ اور جدوجہد کی عوامی حمایت ہے جسے اس کے اراکین سالوں سے جاری رکھے ہوئے ہیں. گذشتہ کئی سالوں سے مختلف سیاسی گروہوں کی شدید مخالفت اور غیر ریاستی عناصر کے تشدد کی زد میں رہنے کے باوجود جس جدوجہد کو بی این پی نے جاری رکھا آج اس جدوجہد کے مثبت آثار بلوچستان کی سیاسی ماحول پر نمایاں طور پہ نظر آنے شروع ہوئے ہیں.
بلوچستان میں رائج کردہ خوف کے ماحول کے نتیجے میں سرفیس پولیٹکس میں جو پڑاؤ آیا تھا اسکی جزوی طَور پَر بحالی اور مکران کے علاقوں کیچ، پنجگور اور بلیدہ جیسے اہم علاقوں سے نامور شخصیات کا بی این پی کے ایجنڈے کی پرچار کرنا اپنے تئیں بڑی کامیابیاں ہیں.
اس تمام تر صورتحال میں بی این پی کا بلوچستان میں پیدا شدہ سازگار ماحول سے فائدہ اٹھانا اسکی دوراندیشی اور سیاسی شعور کا امتحان ہے. بی این پی بلوچستان میں مخلوط حکومت کا حصہ بنے یا نہیں اس ضمن میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے انکا فیصلہ ساز ادارہ اس بات کو سامنے رکھے کہ انکے کسی بھی فیصلے کا انکی سیاسی ساکھ اور بلوچستان کے مجموعی حالات پر کیا مثبت یا منفی اثر پڑ سکتا ہے.
مکران، مستونگ، اور کوئٹہ کے چند اہم حلقوں سے بی این پی کے کامیاب امیدواروں کو زبردستی ہرانا اس بات کا عندیہ ہے کہ طاقتور حلقہ بلوچستان کے اختیارات عوامی نمائندوں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہے. کسی بھی مخلوط حکومت کا حصہ بننا ایک بے اختیار اقتدار ہوگا جس میں بی این پی اپنی کمزور پوزیشن کی وجہ سے اہم فیصلے نہیں لے پائیگی اور اگر فیصلے لے بھی لے تو طاقتور حلقوں کی جانب سے ان پر عملدرآمد نہیں کرنے دیا جائیگا.
اس کے علاوہ پاکستان کے مجموعی سیاسی اور معاشی حالات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، جن سے بلوچستان براہ راست اثر انداز ہے. پنجاب میں جاری سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بیچ تناؤ اور حالیہ تشکیل پانے والی اپوزیشن کے سامنے مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت کتنا عرصہ قائم رہ پائیگی اسکے اثرات اگلے ٦ مہینہ سے ١ سال میں واضح ہو کر سامنے آئینگے. معاشی اعتبار سے پاکستان سنگین معاشی بحران کا شکار ہے. ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت کے ساتھ ساتھ مملکت خدائے داد مزید مقروض ہوتا جائے گا. بلوچستان کی پچھلی بجٹ کو دیکھا جائے جو ٦١ بلینز خسارہ میں تھی اور چند ہی ہفتوں پہلے کی بات ہے کہ بلوچستان حکومت کے پاس سرکاری ملازمین کو تنخواہ اور پنشن کی ادائیگی کے لیئے خزانے میں پیسے نہیں تھے. ایسی صورتحال میں بلوچستان حکومت ڈویلپمنٹ فنڈز کے لئے وفاق پر اکتفا کرے گی اور ضرورت کے مطابق فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے کوئی ڈویلپمنٹ سکیمز نہیں ہونگی اور غربت و بیروزگاری کی روک تھام ممکن نہیں ہوگی اور ایسی حکومت کا حصہ بن کر بی این پی ڈیلیور نہیں کر پائیگی جو اسکی بدنامی اور عوام کی مایوسی کا سبب بنے گی. مختصر طاقتور حلقہ بی این پی کا وہی حال کرنا چاہیگی جو پچھلے دور حکومت میں نیشنل پارٹی کا کیا.
البتہ آج بلوچستان کو کسی کمزور حکومت کے بجائے ایک مضبوط قومپرست اپوزیشن کی ضرورت ہے، جو موجودہ وقت میں محض بی این پی کی قیادت ہی فراہم کر سکتی ہے. اپوزیشن میں بیٹھ کر بی این پی “بلوچستان عوامی پارٹی” جیسی قومپرست مخالف سوچ رکھنے والی تنظیم اور جن مذموم مقاصد کے لئے یہ تشکیل عمل میں لائی گئی ہے ان مقاصد کی نشاندہی اور عملداری کے آگے ایک مضبوط آواز ہوگی. بلوچستان کے سب سے اہم مسائل میں شامل سیاسی و سماجی کارکنوں کی جبری گمشدگی و ماروائے قتل اقدامات کی روکھ تھام، نقل مکانی کرنے والے بلوچوں کی با عزت واپسی، سی پیک کی عملداری کے دوران بلوچ و بلوچستان کے مفادات کا تحفظ اور اسکی منفی پہلووں کی نشاندہی کا کام اپنی بساط کے مطابق بی این پی کے منتخب نمائندہ ایوانوں میں سرانجام دے سکتے ہیں.
اسکے علاوہ بلوچستان نیشنل پارٹی کو جو یہ تھوڑا بہت “بریدنگ سپیس” میسر آیا ہے، اسے وہ خود کو نئے سرے سے منظم کرنے میں استعمال کرے اور اپنی “انسٹی ٹیوشنل بلڈنگ ” کا کام کرے. گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ جو بی این پی کا عوام سے رابطہ منقطع رہا ہے، وہ اس وقت کو عوام سے دوبارہ رابطہ کی بحالی کے لیئے استعمال کرے اور عوام میں ظلم و ستم اور اپنے ووٹ کی پامالی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے جذبات کو ایک موثر اور بہتر اسٹریٹجی کے تحت راہ دے. سیاسی عمل میں پڑاؤ کی وجہ سے نوجوانوں کی سیاسی تربیت کا جو سلسلہ تھم گیا تھا، اسے ایک بہتر انداز میں بحال کرنے کے لیے لاۓ عمل وضح کرے.
اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے سماجی ڈھانچے کو جس قدر بری طرح سے مسخ کیا جا رہا ہے جہاں کم ظرف اور سماج کے دھتکارے ہوئے افراد کی پشت پناہی کی جا رہی ہے، اور عوام خاص کر کہ نوجوانوں کو بلوچستان کے حقیقی اور مثبت کرداروں سے بد دل کرنے کی کوششوں کا جو سلسلہ ایک عرصے سے جاری ہے، اس سلسلے کے خلاف حکمت عملی تیار کرے اور اس ضمن میں ان پالیسیوں کی تبدیلی کے حوالے سے قانون ساز اداروں میں بیٹھ کر متعلقہ قوتوں پر زور دیا جا سکتا ہے. اگر بی این پی وقت و حالات کے تقاضوں کو بھانپتے ہوئے صحیح وقت میں صحیح فیصلہ لے تو آج بلوچستان میں خود کو کنارہ کش کئے افراد اور دیگر قومپرست تنظیموں میں موجود سنجیدہ افراد بی این پی کے کارواں کا حصہ بن سکتے ہیں اور بی این پی آئندہ چند سالوں میں اپنی موجودہ حالت سے کئی گناہ بہتر اور مضبوط شکل میں سامنے آ سکتی ہے.
(مصنّف برطانیہ میں مقیم سماجی و سیاسی ایکٹیوسٹ ہیں جن کا تعلق پنجگور بلوچستان سے ہے، وہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی، بیوٹمز اور بلوچ اسٹوڈنٹس اینڈ یوتھ ایسوسی ایشن یوکے کے سابق چیئرمین رہ چکے ہیں)