نوشکی میں تعلیمی نظام کی تباہ حالی

1156

تحریر: سمیع بلوچ

نوشکی ایک مردم خیز اور تاریخی ضلع ہے جہاں ملک الشہرا میر گل خان نصیر، آزات جمالدینی، میر عاقل خان مینگل، ماما عبداللہ جمالدینی، کفایت کرار، امیر ملک مینگل، منیر احمد بادینی، کامریڈ حمید بلوچ، غمخوار حیات سمیت کئی دوسرے نامور شخصیت پیدا ہوئے اور اعلی مقام پائی۔

مگرآج ہمارے تعلیمی ادارے ایسے بانجھ ہوچکے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے پروڈکشن نہیں دے رہے جسکی وجہ تعلیمی پسماندگی، تعلیم کو ترجیحات میں شامل نہ کرنا، س شعبے کی اہمیت، افادیت سے لا علمی، لا تعلقی، بیگانگی سمیت جان بھوج کر تعلیمی اداروں کو نظر انداز کرنا ہیں۔

پچھلے چار سالہ نام نہاد ایجوکیشن ایمرجنسی کے باوجود بلوچ علاقوں میں تعلیم کے فروغ اور بہتری کے لیے خاطرخواہ کام نہیں کیئے جاسکے اور حالت پہلے سے زیادہ بد تر ہوگئی۔ ایجوکیشن کے ساتھ مذاق تب ہوا جب مشیر تعلیم کو ہٹا کر ایک انگوٹھا چھاپ کو وزیر تعلیم بنا دیا گیا جسکو صحیح معنوں میں اردو بھی نہیں آتی اور نہ ایجوکیشن پالیسی، بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان اور آرٹیکل 25Aکا پتہ ہے۔

اگر ضلع نوشکی کے سرکاری اسکولوں پر ایک نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ نوشکی میں ایسے18 اسکول ہیں جن کو سرکار کی طرف سے بلڈنگز نہیں دی گئی ہے، جن کو شیلٹر لیس اسکول بھی کہا جاتا ہیں، جہاں استاتذہ کرام بچوں کو کسی درخت، ہجرہ، مسجد یا کمرے کے سائے میں بٹھا کر پڑھاتے ہیں۔

نوشکی شہر میں واقع گورنمنٹ بوائز پرائمری اسکول کلی جمال آباد کے علاوہ 91 ایسے اسکول ہیں جو بغیر چار دیواری کے ہیں جسکی وجہ سے اسکولوں میں اکثر چوری کے واقعات رونما ہوتے ہیں اور چھٹی کے بعد ایسے اسکول اکثر نشی لوگوں اور جانوروں کے آماجگاہ بن جاتے ہیں۔

نوشکی میں ایسےتقریبا 7 سے زائد ایسے مڈل اسکول ہیں جہاں 9 کلا سسز کے لیےصرف دو کمرے موجود ہیں۔

سڑکوں اور نالیوں کے تعمیر و بحالی میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کی بجائے تعلیمی اداروں کی بحالی اور بہتری کو یقینی بنانی چاہیے ۔ایک سال میں MPAsکو 38کروڑ کی خطیر رقم دی جاتی ہے ۔ کروڑوں کے فنڈز کو اگر ضرورت کے مطابق، منصفانہ اور دانشمندی سے استعمال کیے جائیں تو لوگوں کے تقدیر بدل سکتے ہے۔

 عوامی نمائندوں کے لیے کچھ مفت مشورے:

سب سے پہلے نوشکی کےعوامی نمائندے اسکولوں میں باونڈری والز کی تعمیر کو یقین بنائیں تاکہ بچے اور اسکول محفوظ ہو سکے۔اس کے بعداسکولوں کو پانی کی فراہمی یقین بنائیں کیونکہ نوشکی کے 180 اسکولوں میں پانی کی سہولت میسر نہیں ہے۔اور پھر اسکولوں میں واش رومز کی مرمت، بحالی اور تعمیر کو یقین بنائیں کیونکہ ضلع نوشکی کے 233 اسکولوں میں سے 117 اسکولوں میں واش رومز موجود نہیں ہیں۔

سنگل ٹیچر کا کانسیپٹ ختم ہوچکی ہے مگر آج بھی نوشکی کے 15 سے زائدپرائمری اسکولوں کو سنگل ٹیچرز چلا رہے ہیں۔ اس لیے محمکہ تعلیم اور عوامی نمائندوں کو چاہیئے کہ وہ نئی آسامیاں createکرنے کے لیے سیکرٹری تعلیم کو پروپوزل بنا کر بھیجے۔ اس عمل سے نہ صرف اسکولوں میں اساتذہ کی کمی دور ہوگی بلکہ نوشکی کے پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار بھی ملے گی۔

اس کے بعد پورے ضلع میں موثر داخلہ مہم چلاکر شعور و آگہی پھیلائیں تاکہ ہر بچہ اسکول میں اور ہر ٹیچر کلاس میں ہو۔ تعلیم، اساتذہ اور اسٹوڈنٹس سے متعلق ہر مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر فوری سیکرٹری ایجوکیشن اور اعلی احکام کے سامنے اجاگر کریں تاکہ مسئلہ جلد از جلد حل ہوسکے۔

اور آخر میں نظریہ ضرورت کے تحت کچھ مڈل اور ہائی اسکولوں کو ایڈیشنل کمرے، سائنس اور کمپوٹر لیبارٹریز کے علاوہ کتب بینی کو فروغ دینےکے لیے لائبریریز بھی فراہم کریں تاکہ نوشکی میں اسکولوں کی حالت زار بہتر ہوکر تعلیم کا معیار بلند ہوسکے۔