خود آگہی – برزکوہی

814

خود آگہی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

خودبینی یا خود آگہی سے مراد خود کو خود جاننا، خود کو سمجھنا، میں کیا ہوں؟ میں کیسا ہوں؟ میں کس جگہ یا مقام پر کھڑا ہوں؟ سوچ و عمل اور کردار کی کس حد تک ہوں؟ تب جاکر آگے بڑھنا ہی صحیح سمت اور صحیح رخ کی نشانی ہوتا ہے، وگرنہ ذہنی الجھن، ذہنی انتشار، پشیمانی اور ذہنی طور پر تھکن اور مایوسی ہمیشہ مقدر کے ساتھ ساتھ ہوگا۔

یہودیت میں ہاسدیت (Hasidism )باطنیت کا ایک باغیانہ مکتبہ فکر ہے، اس کا بانی بعل شیم (Baal shem )ایک نادر ہستی تھے، وہ معمول کے مطابق آدھی رات کے وقت دریا سے آرہے تھے، (کیونکہ رات کو دریا مکمل طور پر خاموش اور پرسکون ہوتا تھا)وہ بس وہاں بیٹھتا رہتا کچھ کیئے بغیر اپنے نفس (ذات)کودیکھتا، ناظر پر نظر ڈالتا۔ اس رات جب وہ واپس آرہا تھا تو ایک امیر آدمی کے گھر کے قریب سے گذرا، پھاٹک پر ایک چوکیدار کھڑا تھا۔ چوکیدار مخمصے کا شکار تھا، کیونکہ ہر رات اسی وقت وہ آدمی واپس آیا کرتا تھا، وہ باہر آیا اور کہنے لگا “میں مداخلت کی معافی چاہتا ہوں لیکن اپنی حس تجسس کو روکنا اب میرے بس میں نہیں رہا، تم شب و روز میرے ذہن پر سوار رہتے ہو، تمھارا کام کیا ہے؟ تم دریا پر کیوں جاتے ہو؟ میں کئی مرتبہ تمھارے پیچھے پیچھے بھی گیا لیکن وہاں کچھ بھی نہیں تم بس یونہی کئی گھنٹوں تک وہاں بیٹھے رہتے ہو اور آدھی رات کو واپس آجاتے ہو۔”

بعل شیم نے کہا “میں جانتا ہوں کہ تم کئی بار میرے تعاقب میں آئے ہو کیونکہ رات کی خاموشی میں قدموں کی چاپ تک سنائی دیتی ہے اور مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ تم ہر رات کو پھاٹک کے پیچھے پیچھے ہوتے ہو لیکن صرف تم ہی میرے بارے میں متحجس نہیں بلکہ میں بھی تمھارے بارے میں متحجس ہوں، تم کیا کام کرتے ہو؟”

اس نے کہا “میں چوکیدار(واچ مین)ہوں۔” بعل شیم نے کہا “اوخدایا! تم نے مجھے اصل لفظ فراہم کردیا، میرا بھی یہی کام ہے۔” چوکیدار بولا “اگر تم چوکیدار ہو، تمہیں کسی مکان یا محل وغیرہ کی چوکیداری کرنی چاہیئے، تم وہاں ریت پر بیٹھے کیا کرتے رہتے ہو؟”

بعل شیم نے جواب دیا ‘اس میں زیادہ فرق نہیں، تم کسی باہر والے پر نظر رکھتے ہو اور میں صرف اس اندر والے ناظر پر نظر رکھتا ہوں یہ دیکھنے والا کون ہے؟ یہ میری ذندگی بھر کی جستجو ہے میں خودبین ہوں۔”

چوکیدار کہنے لگا “لیکن یہ تو عجیب کام ہے تمھیں تنخواہ کون دیتا ہے؟” اس نے کہا “یہ اس قدر مسرت اس قدر راحت رساں اور ایسی رحمت ہے کہ مجھے بہت کچھ مل جاتا ہے، بس ایک لمحہ اور تمام خزانے اس کے سامنے ہچ ہوجاتے ہیں۔”

چوکیدار بولا “بڑی عجیب بات ہے میری ساری زندگی چوکیداری کرتے ہوئے گذری ہے، مجھے تو کبھی کوئی ایسا خوبصورت تجربہ نہیں ہوا، کل رات میں بھی تمھارے ساتھ جاؤں گا، مجھے بھی سکھانا کیونکہ مجھے نظر رکھنے کا طریقہ معلوم ہے اس لیئے لگتا ہے کہ صرف سمت بدلنے کی ضرورت ہے، تم کسی مختلف سمت میں دیکھ رہے ہو۔”

مرحلہ صرف ایک ہے اور وہ مرحلہ ہے سمت کا، یا تو ہم باہر کی طرف توجہ مرکوز کرسکتے ہیں یا پھر باہر سے نظریں ہٹا کر سارے شعور کو اپنے اندر کی جانب مرکوز کرسکتے ہیں اور آپ کو پتہ چل جائے گا کیونکہ آپ جاننے والے ہیں، آپ آگہی ہیں آپ کبھی اپنی آگہی سے محروم نہیں ہوئے۔ بس آپ نے آگہی کو ایک ہزار ایک چیزوں میں الجھا رکھا ہے، اپنی آگہی بصریت کو تمام اطراف سے ہٹا کر اپنے اندر کی جانب لگائیں تو مراد پالیں گے۔

انسانی کہیں یا دنیاوی غلطیوں سے ہی انسان ہمیشہ الجھن اور ذہنی تناؤ اور ذہنی کشمکش کا شکار ہوتا ہے، اس میں باہر یعنی حالات، واقعات، حادثات اور دوسروں کے کم اندر کی یعنی انسان کی اپنی زیادہ مداخلت ہوتا ہے کیوں؟ جب انسان کی توجہ اپنی ذات کی سمت سے ہٹ کر دوسرے اور مختلف سمت ہوگا، تو انسان ہمیشہ غلطی در غلطی کی صحرا میں محو سفر ہوگا۔

دوسری اہم بات جستجو ہے، بعل شیم کی فلسفیانہ سوچ جستجو کے تناظر میں واضح ہے، خاص کر اپنی ذات کی جستجو یعنی کس حد تک میں کیا ہوں؟ کیسا ہوں؟ میں کیا جانتا ہوں؟ کیا نہیں جانتا ہوں؟ اس تانظر میں ہم یونانی فلاسفر، دنیا کے سچائی کے علمبردار و پیغمبر اور سب سے عقلمند و دانش مند انسان سقراط کے اس مشہور قول کو یاد کرتے ہیں کہ ان سے کسی نے پوچھا آپ کیا جانتے ہیں، سقراط کا جواب تھا “میں یہ جانتا ہوں، میں کچھ نہیں جانتا ہوں۔”

نتیجہ اتنے جاننے کے باوجود وہ کہتا ہے میں کچھ نہیں جانتا ہوں، یہی سوچ، یہی احساس اور یہی جستجو سقراط کو مزید جاننے اور سمجھنے کی قوت بخشتا ہے، آج تک وہ دنیا کے عظیم فلسفی کے نام و مقام سے جاننا جاتا ہے۔ آج ہم کس حد، تک کہاں تک تجسس اور علم و عمل کی جستجو اور تشنگی میں بے آرام ہیں؟ اور ہماری توجہ شعور و علم کی طرف مرکوز ہے اندر کی طرف باہر کی طرف؟ یا بس ذندگی کو بطور نوکری یا ڈیوٹی گذار رہے ہیں؟

کیوں آخر کیوں؟ پھر کیسے ہر لمحہ ہر موڑ پر ہم حالات اور ماحول (mob )کا شکار ہیں، ایک جگہ ٹہرنے کے بجائے کبھی ادھر کبھی ادھر بٹھکتے رہینگے، کیا یہ بکھرے ہوئے خیالات اور ذہنی الجھنوں میں مبتلا، ذہنی کیفیت خود ہمارے باشعور انسانی خصلتوں کی عکاسی کرتا ہے؟ ہرگز نہیں شعوری جہدوجہد کے دعویدار جہدکار ہوتے ہوئے جب جستجو ذات سے نابلد ہوکر شعور کا دعویٰ، پھر خود لاشعوری کی زمرے میں شمار نہیں ہوگا؟

کیا بہت سے معاملات میں ہماری آج کی نابلدی اور لاعلمی ہمارے کل مستقبل اور مقدر کی مایوسی اور پشیمانیوں کی نشاندہی نہیں کرتا؟ پھر قصور اور گناہ کس کی ہوگی، کس کے کھاتے میں جائے گی؟ وہ ہماری ہوگی اور کسی کا نہیں ہوگا، بعد میں ہم جو کہیں، جیسا بھی کہیں لیکن وقت اور تاریخ کے صفحوں میں کمزور اور نالائق ہم خود ہی ہونگے اور کوئی نہیں ہوگا، نہ حالات ہونگے، نہ واقعات ہونگے، کیونکہ بقول انتھونی رابنز انسان حالات و واقعات اور ماحول کے مخلوق نہیں بلکہ حالات و واقعات اور ماحول انسان کے مخلوقات اور پیدا کردہ ہوتے ہیں۔

ہاں اگر Is it is (جیسے کا تیسا) زندگی گذارنا ہے، بس آخری حد اختتام اور ہدف اسی حدتک ہے، شعور و سوچ علم اور عمل کا آخری مقام بس کافی ہے، تو پھر صحیح لیکن ساتھ ساتھ افسوس اور ماتم کے ساتھ کچھ کہنا باقی نہیں رہتا، پھر کیوں کس لیئے انسان کے روپ میں جانور بن کر اس طرح زندگی کے ساتھ سمجھوتہ اور مصالحت کررہے ہیں؟ کیا یہ خود کے ساتھ خود نا انصافی اور ناروا سلوک نہیں ہے؟

انقلابی کبھی بھی اپنے عمل و کردار سے مطمین نہیں ہوتا ہے، اس کے ذہن میں ہمیشہ شک ہوتا ہے، جب وہ مطمین ہوگا اپنے دل و دماغ میں، وہاں سے ہی اس کا زوال اور کردار کے موت کا سفر شروع ہوگا، جو آخر کار اپنے حتمی شکل میں مکمل موت ثابت ہوگا۔

آج میں کم از کم دیکھ رہا ہوں، مجوعی صورتحال کی تناظر میں فرد و افراد کس طرح اور کیسے دماغ و عقل سے پیدل کس سمت میں محو سفر ہیں، جن کا سفر ایک گول دائرے میں گھوم کر آخر کار مایوسی، الجھن اور پشیمانی پر آکر رک جاتا ہے، جو صاف شفاف اور واضح ہے کیوں؟

اس لیئے کہ جس سمت اور ہدف پر توجہ مرکوز کرکے جستجو کرنا اور سوچنا چاہیئے، وہاں کوئی توجہ نہیں، بس حسب معمول اور حسب روایات جو چلتا اور چل رہا ہے، یہی ہے سب کچھ جب سوچ اور خیالات اور تجسس اس حد تک قید اور محدود ہوں پھر انسانی ادراک اور حس سے انسان خود بخود محروم ہوگا، کل کیا ہوگا کچھ معلوم نہیں ہے، مستقبل دور نہیں، مستقبل قریب کیسے ہوگا؟ کچھ معلوم ہے؟ بس حالات کے رحم و کرم پر، پھر حالات کے رحم و کرم اور صرف ردعمل کی بنیاد پر یعنی بغیر طویل المیعاد منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے نہ کل دنیا میں کوئی تحریک کامیاب ہوا اور نہ آج کامیاب ہوگا۔

اگر پوری رات بعل شیم کی طرح سوچنے کی فرصت اور توفیق نہیں، کم سے کم ہر ایک کو صرف اور صرف ہر دن یا رات انتہائی ٹھنڈے دماغ سے، خاموشی اور جذبات سے ہٹ کر آدھا گھنٹہ اپنے اندر سے لیکر معروضی و موضوعی حالات کے ساتھ ہر سمت پر غور سے سوچنا ہوگا، اپنے دماغ کو استعمال میں لانا ہوگا، میں کیا ہوں، میری ذمہ داری کیا ہے، مجھے آگے کیا چاہیئے، کیسے کرنا چاہیئے، کیوں کرنا چاہیئے، میں کیوں کیسے اور کس مقصد کے ساتھ وابستہ ہوں۔ بقول رینے ڈیکارٹے اچھا دماغ رکھنا کافی نہیں، اصل بات اس کو استعمال میں لانا ہے۔

دماغ کیسے اور کس طرح استعمال میں آکر انسان کی تخلیقی و تحقیقی صلاحیتں ابھارے گا؟ یہ اس وقت ممکن ہوگا جب انسان کے سوچنے اور غور کرنے کی سمت واضح اور اہم اہداف اور ترججیات کی جانب ہو، غیر ضروری سطحی لاحاصل چیزوں پر اٹکنے بھٹکنے سے انسان ذہنی طور پر منتشر ہوکر دماغ کا استعمال دور کی بات ہوگی، مزید انسانی دماغ ہمیشہ کے لیئے پراگندہ ہوکر انسان ذندہ ہوکر بھی مردوں میں شمار ہوگا، ایسے انسان ضیاع شدہ انسانوں کے فہرست میں شمار ہونگے، جو پہلے بھی عربوں اور کھربوں کے تعداد میں گذر چکے ہیں۔ پھر ہم گذر جائینگے، آج اپنے ہی دل و دماغ میں یا سطحی اور کم علم بے شعور لوگوں کے خیالات اور نقطہ نظر میں جتنا بھی لاٹھا خان ہوں لیکن تاریخ کی صفحوں میں کہیں بھی ہمارے معمولی نشان بھی نہیں ہونگے۔

جب تک تجسس علم و عمل کو ہم اپنی شیوہ نہیں بناتے، اس وقت تک غلط سمت اور غلط رخ سفر ہمارے شانہ بشانہ ہمسفر ہوگا، ضرورت اس امر کی ہے کہ جہدوجہد میں مکمل متحرک خود آگہی، آس پاس ارگرد اور دشمن کی آگہی اہم ہیں، اس حوالے سے علمی و سیاسی اور حقیقی جنگی تقاضوں اور رجحانات کو فروغ دینا اہم ضرورت ہے۔