ہجوم یا نظریہ
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
وقت و حالات کا تجزیہ کرنے کے لیئے سطحی ذہنیت سے نکل کر دوراندیشانہ فکر کیساتھ باریک بینی سے حقائق کی چھان بین ضروری ہے۔ ایک انقلابی کبھی سطحیت سے متاثر نہیں ہوتا، کیونکہ اسے انسانی تاریخ کا علم ہوتا ہے اور جس مقصد سے وہ وابستہ ہوتا ہے وہ کوئی سطحی خواہش نہیں جو چند دن یا چند سال گذرنے کے بعد بدل جائے، بلکہ گذرتے وقت کے ساتھ اس کا فکر پختہ ہوجاتا ہے۔ تاریخ کا واضح سبق ہے کہ انقلابی کرداروں نے ہجوم کے بجائے نظریئے کا ساتھ دیا ہے اور نجات کی راہ تلاش کی ہے، وہاں جب ہجوم مایوس ہوتا ہے، تب انقلابی جہدکار پر امید رہ کر جدوجہد کو آگے بڑھاتا ہے اور یہی جدوجہد اسے ہجوم میں گم ہونے نہیں دیتا، بلکہ اس کے انقلابی کردار کی واضح نشانی بن جاتا ہے۔ بقول بابا مری “وکیل تو بہت ہوتے ہیں لیکن لینن؟” یعنی لینن جیسا کردار ہر وکیل ادا نہیں کرسکتا اور اگر لینن بھی ایک عام وکیل بن کر جیتا تو شاید ہی وہ کسی اہمیت کا حامل ہوتا لیکن یہ وہی لینن تھا جس نے اپنے مستقل مزاجی سے روس جیسے نیم جاگیرداری سماج میں انقلاب برپا کردیا، یہی لینن جس نے بچوں کو درس دیا کہ انقلاب کے لیے نسل در نسل جدوجہد کرنا پڑتا ہے۔
شاید ہم نہ دیکھ پائیں،آپ نہ دیکھ پائیں لیکن اس سے اگلی نسل وہ دن ضرور دیکھی گی۔ یہ ایک انقلابی فکر کی دوراندیشی ہے اور اسی لیئے نیلسن منڈیلا کہہ گیا کہ ” لیڈر اگلے نسل کا جبکہ سیاستدان اگلی الیکشن کا سوچتا ہے۔” بدقسمتی یہی رہی کہ بلوچ سماج میں کوئی انقلابی کردار کوئی انقلابی معیار قائم ہی نہیں ہوسکا، وقت کیساتھ سب سیاستدان بنتے چلے گئے، الیکشن پر اگلا الیکشن آتا گیا لیکن نسلیں غلامی کے اندھیرے میں برباد ہوتی چلی گئیں۔ بابا مری جیسے کردار نے جب روایتی سیاست کے خلاف ایک معیار قائم کیا، تب باشعور بلوچ نوجوان ان کے کردار سے انسپائر ہوئے اور آج وہی فکر جو آنے والے نسلوں کے لیئے ہے۔
کسی سیاستدان کو بابائے بلوچستان تو کسی کو قدآور لیڈر جیسے القابات دیئے گئے لیکن ان کا کردار محض ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک ہی رہا، انہوں نے آنے والی نسلوں کے لیئے سوائے ذلت، مایوسی اور نوآبادیاتی نظام کو تسلیم کرنے کے کوئی اور قابل تعریف فکر نہیں دیا۔ ان کے سیاسی وارثین نے بلوچ جدوجہد آزادی کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا، کہیں شفیق مینگل کے ہمرکاب بن گئے، تو کہیں مذہبی جھتوں کی سرپرستی کرنے لگے۔ یہ سطحی ذہنیت ہے جو ذات سے شروع ہوکر گروہ پر ختم ہو جاتا ہے، اس لیئے اس سے کوئی توقع نہیں رکھی جاسکتی، لیکن بلوچ نوجوان اس بات کو باریک بینی سے سمجھنے کی کوشش کریں کہ جو کردار آنے والی نسلوں کے لیئے فکر رکھتے ہیں اور جو اگلی الیکشن تک محدود سوچ رکھتے ہیں، ان دونوں میں سے کون طویل المدتی بنیادوں پر قومی مفاد میں بہتر ہے۔
آج ایک ہجوم ہے اور ہجوم کے ارد گرد سیاسی مداری ہیں، جو بلوچ جدوجہد آزادی سے مایوس کرنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں، جو کہتے ہیں کہ بلوچ تحریک ناکام ہوچکی ہے اور ریاستی جبر کی تمام ذمہ داری بلوچ جہدکاروں کے کھاتے میں ڈال کر نوآبادیاتی نظام کی حقیقتوں کو جھٹلا رہے ہیں لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بلوچ قومی تحریک کو حادثاتی ردعمل نہیں بلکہ ایک جینوین جدوجہد ہے اور بلوچ دھرتی کی پیداوار ہے۔ بلوچ قومی جدوجہد آنے والی نسلوں کے لیئے ہے، کیونکہ نوآبادیاتی نظام میں بلوچ کی حیثیت ایک دیسی غلام کے اور کچھ نہیں اور تاریخی حقیقت واضح ہے کہ ایک غلام قوم، غلام رہ کر اپنی تقدیر کا فیصلہ کبھی اپنے ہاتھوں میں نہیں لے سکتی، کم از کم مثال کے طور پر آپ بنگال کو دیکھ لیں، جو اکثریت میں ہونے کے باوجود نوآبادیاتی پالیسیوں کا شکار رہی اور وہاں بھی ایڈجسٹ ہونے کی ساری کوششوں کا نتیجہ قتل عام کے ذریعے دیا گیا۔
آج ایک جانب اگر سیاستدانوں کا ہجوم ہے تو دوسری جانب بلوچ جہدکار شعور و فکر سے لیس کھڑا ہے، جس نے آنے والی نسلوں کے لیئے جدوجہد کو جاری رکھنے کا تہیہ کرلیا ہے اور یہ بھی واضح امر ہے کہ بلوچ کی تمام تکالیف و مصائب کا بنیادی سبب نوآبادیاتی نظام ہے اور اس سے نجات ہی بلوچ قوم کو ایک بہتر مستقبل فراہم کرسکتا ہے۔
ہجوم کا ساتھ دے کر وقتی طور پر کچھ آسائش و مراعات تو حاصل کی جاسکتی ہیں، لیکن اس کے لیئے آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سودا کرنا پڑیگا، جو ایک انقلابی فکر سے لیس انسان کے لیئے کسی بڑے جرم سے کم نہیں۔ ایک سطحی سوچ کیساتھ ہجوم کا حصہ بننے کی بجائے انقلابی فکر کیساتھ بلوچ جہدکاروں کا ساتھ دینا چاہیئے۔