پاکستان سے بلوچوں کی جنگ – سنگر بلوچ

834

پاکستان سے بلوچوں کی جنگ

تحریر: سنگر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

جنگ کیا ہے؟ جنگ کوئی بھلی چیز نہیں ہے، جنگ کرنے سے ہمارے اپنے پیارے شہید ہوتے ہیں، پسِ زندان چلے جاتے ہیں، دوست بچھڑ جاتے ہیں، جنگ ایک تباہ کن شے کا نام ہے، اس میں غم اور بربادی کے سوا اور کچھ نہیں رکھا ہے، اسلیئےَ ہرکسی کو جنگ پسند نہیں۔ جنگ شٍدت کانام ہے، جنگ میں چھوٹے چھوٹے بچے بهی زد میں آکر زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں، مگر جنگ کس بنیاد پر لڑی جاتی ہے؟ جنگ خواہشات، لالچ اور اپنے مفادات کی خاطر نہیں ہوسکتی ہے، جنگ لڑنے کیلئے انسان کو شعوری طور پر تیار ہونا چاہیئے، اُسکو جنگ کے بارے میں پڑھنا ہوگا، اسکو جنگ کے بارے میں سب معلومات حاصل کرنا ہوگا، اگر اُس نے سب چیزوں کو حاصل کیا، اب آکے جنگ کرے، تو بہتر اور شفاف جنگ کی جانب راغب ہوسکتا ہے، جس سے تحریک شعوری بنیاد پر آراستہ ہوگا۔

آج بلوچستان حالت ِ جنگ میں ہے، بلوچستان کے لوگ ظلم اور جبر کا شکار ہیں، اسلیئے بلوچ فرزندوں نے اپنے دهرتی کے دفاع اور اپنے قوم کو غلامی سے نکالنے کیلئے جنگ کا آغاز کردیا، بلوچ فرزندوں نے جنگ مجبوری کی بنیاد میں جاری رکها تاکہ دشمن ریاست بلوچستان سے نکل جائے اور بلوچ فرزندوں نے جنگ کو اچهی طرح سے سمجھ کے جنگ کیا ہے، اور کس طرح کرنی ہے؟ جنگ کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں؟ یہ سب جاننے کے بعد، اب بلوچ فرزندوں نے جنگ کا آغاز بلوچستان بھر میں شروع کردیا، اسلیئے بلوچوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ جن کو پاکستان سے نجات دلا سکے، اسلیئے آخری راستہ جنگ تها، جو بلوچوں کے مستقبل کو روشن کرے، بلوچوں کو پاکستان سے نجات دلائے۔

بلوچوں کا دشمن ایک بڑا طاقتور ریاست ہے، اُسکے پاس سب کچھ ہے، مگر بلوچوں کے پاس اتنا طاقت تو نہیں ہے کہ بلوچ ایک بڑی ریاست کے مقابلے میں جنگ لڑے اور اُس سے اپنا وطن بلوجستان چھین لے۔ بے شک بلوچوں کے پاس اتنا تو طاقت نہیں ہے، مگر بلوچوں کے پاس ایک مظبوط سوچ نظریہ اور حوصلہ و برداشت وجود رکھتا ہے، اسلیئے آج بلوچوں نے پاکستان کے خلاف اپنا جنگ جاری رکھا ہوا ہے، جو تاحال جاری ہے۔ اس جنگ میں بلوچوں کو بهی نقصان ہوا ہے، اور پاکستان کو بهی بلوچ سرمچاروں نے پسپا کردیا ہے۔ آج پاکستان بلوچ پر مختلف طریقوں سے ظلم ڈھ رہا ہے، بلوچوں پر ظلم وجبر میں تیزی لائی جاری ہے، تاکہ بلوچ خوف کا شکار ہوکر اپنا جنگ ختم کریں، مگر بلوچوں نے پاکستان کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ بلوچ اپنی آزادی کیلئےَ کسی کے سامنے سر جھکانے کے بجائے کٹوانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جنگ لڑنا ایک تتظیم کی سخت ضرورت ہوتی ہے، سچے لیڈر شپ کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ سب ہوں آپ کو ایک اداره موثر ہو تو اُس ادارے کے زریعے اپنے ساتهیوں کو اچهی طرح سے کنٹرول کرسکتے ہیں، انکو نظم وضبط کا پابند کرسکتے ہیں، آپ اچهی طرح سے اپنے دشمن کو شکست دے سکتے، آپ کے پاس یہ سب ہونا ضروری ہے، آپ کو اپنے ساتهیوں کو اچهی طرح سے تربیت دینا ہے تاکہ وه سخت حالات کے مقابلہ کریں، بلوچ ایک حدتک ان چیزوں میں کامیاب ہوچکا ہے، مگر ان میں سے کچھ کمزوری، بلوچ مزاحمت کاورں کے اندر موجود ہے، ایک دوسرے پارٹی کو برداشت نہ کرنا، آپس میں اتحاد نہیں ہونا، یہ کمزوری تو بلوچ لیڈر شپ کے درمیان موجود ہیں، منزل، کامیابی، بلوچستان سے دشمن کو نکالنا تب تک بہت دور کی باتیں ہیں۔
جب تک ہم ان کمزوریوں پر قانو نہ پائینگے، ہم سے ہمارا قوم بهی مایوس ہوکر دوسرا رخ اختیار کرے گا، اتنی قربانیوں کے بعد بھی ایک نہ ہوسکے، تو دشمن ہمیں توڑ دے گا۔ دشمن آئے روز طاقتور ہوتا جارہا ہے، ایک بہت بڑی ریاست کے سامنے ہمیں ملکر لڑنا ہے، بلوچوں نے آزادی کیلئے اپنا سب کچھ قربان کردیا ہے، مگر بس انا اورضد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے سامنے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں، انقلابیوں کو سب کچھ برداشت کرنا ہوگا، لہٰذا میں ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے تمام بلوچ لیڈرشپ سے درخواہست کرتا ہوں کہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ساتھ چلنے کا راستہ اپنا لیں۔