کیبرال کی کامیابی “مینگ” کی ناکامی – برزکوہی

337

کیبرال کی کامیابی “مینگ” کی ناکامی

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ 

قبائلی و مذہبی طور پر گنی بساو اس وقت مکمل تقسیم تھا، ان قبائل میں balanta, fula, manjaca, manjaca اورpape شامل تھے، جبکہ نصف کے قریب آبادی مسلمان تھی، دوسرے نمبر پر قدیم افریقی مذہب (مظاہر پرست)کے پیروکار تھے اور مسیحی بھی اچھی خاصی تعداد رکھتے تھے، لیکن گنی بساو میں اصل تقسیم مذہب کی بجائے قبائلی بنیادوں پر ہی تھی، جسے پرتگیزی استعمار نے ہمیشہ بڑھاوا دیا۔ لڑاو اور حکومت کرو ویسے اہل یورپ کا پرانا آزمودہ نسخہ رہا ہے۔

۔(MING)کی ناکامی میں دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ ایک اہم اور بنیادی وجہ یہ بھی تھی، جس پر قابو پانے میں ناکام رہے۔ یاد رہے، کیبرال کی تنظیم (African party for the independence of guinea and cap verde)یعنی ( PAIGC ) کے قیام سے قبل قومی آزادی کیلئے برسرپیکار تنظیم (movemant for the national independence of guni )یعنی (MING ) جدوجہد کررہی تھی، جو ناکام ہوئی۔ ناکامی کی بنیادی وجہ گنی بساو میں موجود قبائلی تضادات اور تقسیم پر قابو نہ پانا تھا۔ بلکہ قبائلیت کو شعوری اور لاشعوری بنیادوں پر خود ہوا دینا تھا۔

بعد ازاں امیلکار کیبرال جیسا قومی لیڈر سامنے آئے، جو پرتگیزیوں کے وفادار خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جس کا باپ سیاہ فام لاٹ صاحب تھے، انہوں نے کیبرال کو پرتگال کے شہر لزبن میں واقع instituto superior de agronomia بھیج دیا، جہاں انہوں نے ذراعت کی تعلیم حاصل کی، شاید پرتگیزی سمجھتے تھے کہ باپ کی طرح بیٹے کو بھی اپنے استعماری راج کو دوام بخشنے کے لیئے بآسانی استعمال کیا جاسکے گا، مگر یہ ان کی خام خیالی تھی۔

کیبرال لزبن کی یونیورسٹی سے محض ایک زرعی انجنیئر بن کر لوٹنے کے لیئے پیدا نہیں ہوئے تھے، بلکہ انہیں یہاں سے ایک عظیم سامراج مخالف وطن پرست انقلابی بن کر لوٹنا تھا، جس نے نہ صرف گنی بساو اور جزائر کیپ وردے کی تحریک آزادی کی قیادت کرنی تھی، بلکہ ان کے فکر و فلسفے سے پورے افریقہ کو متاثر ہونا تھا اور ان کی تعلیمات نے دنیا کے دیگر حصوں میں مظلوم اقوام کی جہدوجہد کو جلا بخشی۔

کیبرال اپنی تعلیم مکمل کرکے گنی بساو واپس لوٹا، تو پرتگیزی حکام نے انہیں ایک پرکشش ملازمت دیکر گنی بساو میں زرعی اعداد شمار جمع کرنے پر معمور کردیا۔ اس ملازمت کے دوران کیبرال گنی بساو کے کونے کونے میں گئے، بظاہر تو زرعی اعداد و شمار اکھٹے کررہے تھے، مگر اپنے اصل مقصد یعنی تنطیم سازی اور اس کے لیئے رابطوں سے بلکل بھی غافل نہ تھے۔

کیبرال سب سے پہلے MING تنظیم کی ناکامی اور گنی بساو سماج کی سماجی خدوخال قبائلی تقسیم کو مدنظر رکھ کرسب سے پہلے عملاً خود کو اپنی جنم بھومی یعنی گنی بساو کا بیٹا ثابت کیا۔ پان افریقن ازم کا پرجوش نمائندہ کیبرال بن کر، افریقہ ایک ہے کے نعرہ کو لیکر وہ عملاً گنی بساو کے کسی قبیلے یا نسلی گروہ سے لاتعلق ہوکر صرف گنی بساو کا بیٹا بن کر آگے آئے اور اپنے آپ کو ثابت کیا۔ ان کی قیادت اور رہنمائی سے کسی نے اختلاف نہیں رکھا اور وہ سارے قبائل کو متحد و منظم کرنے میں کامیاب رہے۔

اس لیئے انہوں نے گنی بساو اور کیپ وردے کی آزادی کے لیئے مشترکہ تحریک کی بنیاد رکھی، بلکہ افریقہ میں پرتگیزی نوآبادیات سے لیکر دیگر قومی آزادی کی تحریکوں سے ان کے ہمیشہ پرجوش تعلقات رہے۔

گوکہ ابتداء میں کیبرال کی تنظیم PAIGCکوئی گوریلا تنظیم نہیں تھی، بلکہ شہر میں اس کے ابتدائی مراکز قائم کرنے کا مقصد جہدوجہد کے معروف سیاسی طریقوں کو بروکار لانا تھا۔

لیکن گنی بساو اور دیگر شہروں میں PAIGCبڑی تعداد میں محنت کشوں کی ہڑتالیں اور مظاہرے کرنے میں کامیاب رہی، اگست 1959 میں pigigiui نامی شہر میں گودی کے محنت کش ہڑتال پر تھے، جسے کچلنے کے لیئے استعمار نے بڑے پیمانے پر کاروائی کا آغاز کیا اور مسلح دستے ہڑتالی مزدوروں کو کچلنے کے لیئے روانہ کئے گئے، پرتگیزی فوج کی اس ظالمانہ کاروائی میں 50 محنت کش سفاکی سے قتل کردیئے گئے، 100 سے زائد زخمی ہوئے، جبکہ پارٹی کے سینکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرکے پرتگیزی اذیت خانوں میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، یہ واقع pigigiuiکے قتل عام کے نام سے مشہور ہوا جس نے pAIGC کے لیئے معروف سیاسی طریقوں اور اس کی آزادی حاصل کرنے کی جہدوجہد کی بجائے مسلح جہدوجہد کا راستہ متعین کیا۔

یہاں سے پھر کیبرال فرانز فینن کے اس فلسفے پر عمل پیرا ہوئے کہ “تشدد کو انقلابی تشدد کے ذریعے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔” کیبرال نے گنی بساو کے تمام قبائل کو افریقن سوچ میں ڈھال کر، انتہائی منظم اور موثر انداز میں پورے گنی بساو میں قومی آزادی کیلئے گوریلا جنگ شروع کردیا، آج دنیا میں وہ ایک زرعی انجنیئر نہیں، بلکہ عظیم گوریلا لیڈر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیوں کیسے اور کس طرح کیبرال جیسے رہنما ایک قبائلی اور مذہبی منقسم سماج اور تضادات کے شکار قبائلی اور مذہبی گنی بساو جیسے طاقت ور پرتگیزی قبضے کے شکار سماج کو تبدیل کرکے قومی آزادی کی راہ میں منظم و متحد کرکے ایک عوامی تحریک کی شکل دی؟

جواب بلکل سیدھا سادہ ہے، اس میں کوئی دورائے، ابہام اور شک کی گنجاہش نہیں ہے کہ کیبرال نے سب سے پہلے خود کو عملاً صرف اور صرف گنی بساو کی بیٹا ثابت کردیا، اس کے بعد گنی بساو کے ہر طبقے، مزدور، کسان، پرولتاریہ، بورژوا، پیٹی بورژوا بغیر اختلاف کے اس کی قیادت میں متحد ہوگئے۔

کیا آزادی پسند بلوچ قیادت اور جہدکار آج عملاً، اپنے اپاہج قبائلیت کی خول سے نکل کر بلوچ اور بلوچستان کا مکمل بیٹا بن چکے ہیں؟ کیا آج بلوچ آزادی کی تحریک میں قبائلی، نیم قبائلی یا اپاہچ شدہ ذہنیت موجود نہیں ہے؟ اگر ہے تو پھر کس حد تک ہے؟ اور کیوں ہے؟ اس کا فائدہ کیا ہے؟

جب تک خود بلوچ قیادت اور جہدکار شعوری اور لاشعوری طور پر یا کم عقلی اور کم علمی کی بل بوتے اگر قبائلیت یا قبائلی ذہینت اور طرز زندگی کا شکار ہونگے، اس وقت تک میرا خیال نہیں بلکہ میرا ایمان و عقیدہ ہے، بلوچ سماج اور اپاہچ قبائلیت کے شکار قوم کو اس وقت تک ایک منظم عوامی تحریک کی شکل دینا ناممکن ہوگا۔

بلوچ ریاست کی وسیع تشکیل، بلوچستان کی اس وقت کے سربراہ نصیرخان نوری کی بہادرانہ، قائدانہ، معتبرانہ، ماہرانہ علم و ہنر صلاحیتوں اور قربانیوں سے انکار ہماری اوقات نہیں لیکن بلوچ ریاست کی دفاعی فوج کو قبائلی شکل میں منظم اور متحد کرکے قبائلیت کو دوام بخشنا اور سرداروں کو مضبوط کرنا، آج بھی تاریخ اور تحقیق میں نصیرخان کی قومی خدمات اور قومی کردار پر سوالیہ نشان ہے اور بلوچ ریاست کے زوال کی اہم کڑی ثابت ہوتی ہے۔

پھر آج اکیسویں صدی میں بقول سردار عطاء اللہ مینگل خود ایک بڑے بلوچ قبیلے مینگل کے سردار ہوتے ہوئے، اعتراف کرنا کہ بلوچ سماج میں قبائلیت دم توڑ چکا ہے، اس کے باوجود میرے خیال میں اگر آزادی کی جہد میں شعوری یا لاشعوری، کم علمی اور ناسمجھی کے بنیاد پر ذرا برابر بھی اگر قبائلیت کی معمولی جھلک موجود ہے، تو وہ بھی قومی تحریک میں بڑی رکاوٹ ہے۔ کیونکہ یہ دشمن کے عزائم کو تقویت دینے کے مترادف ہوگی۔

ہر بلوچ کا تعلق ضرور کسی نہ کسی قبیلے سے ہے، اگر تھوڑا بھی قبائلیت کا رنگ اور اثرات اگر بلاواسط یا بالواسطہ موجود ہو، تو وہ بھی ضرور اثر انداز ہوکر قبائلی رجحان کی طرف راغب ہوگی۔ پھر قبائلی سوچ کی بنیاد پر ایک دوسرے کو عدم برداشت کی صورت میں کوئی کسی کو برداشت نہ کرنے کی شروعات ہوگی، پھر عدم برداشت کا رویہ تحریک کے انتشار اور رکاوٹ میں اہم کڑی ثابت ہوگی۔

ہمیشہ شعوری و لاشعوری ماحول اور رجحانات خیالات بن جاتے ہیں اور خیالات رفتہ رفتہ عقائد بن جاتے ہیں، پھر عقائدمضبوط ہوتے ہیں جن کو توڑنا مشکل ہوتا ہے۔ کم از کم پہلے قوم کو بلوچ بنانے اور بلوچ تحریک کا حصہ بنانے کی خاطر خود عملاً بلوچ بن کر، بلوچ بننا چاہیئے، لفاظیت اور دکھاوے سے ہٹ کر، ذہینت کی حد تک۔ اصل چیز ذہینت ہے، جو عمل اور رویوں کی تشکیل کرتا ہے اور پھر رویے اثر انداذ ہوتے ہیں۔

ایک فیصد بھی خود کی ذہن میں اگر قبائلیت کے جراثیم موجود ہوں، پھر دوسرے سے عملاً بلوچ بننے کی توقع کرنا خام خیالی ہے، جب پورا بلوچ بن کر تحریک کا حصہ نہیں ہونگے، اس وقت تک بلوچ کے نام پر بلوچ قومی تحریک مکمل قومی اور عوامی تحریک ثابت نہیں ہوگی۔

خود قبائلی بن کر اپاہچ قبائلیت کے شکار قوم کو بلوچیت کے دائرے میں لانا، پھر ممکن نہیں بلکہ خود شعوری یا لاشعوری طور پر اپاہچ قبائلیت کو دوام اور بڑھاوا دینے کے مترادف ہوگی، ایسے اعمال سے مزید اپاہچ قبائلیت کو تقویت ملے گی، جو تحریکی تقاضات اور رجحانات کے منافی ہے۔

عظیم انقلابی اور گوریلا لیڈر کیبرال کے نظریات و افکار اور فلسفے کو پورا سمجھ کر ہر بلوچ جہدکار کو نیک نیتی کے ساتھ اپنے قومی کردار کو جاننا اور پرکھنا ہوگا، یعنی میں خود کہاں پر کھڑا ہوں، سوچ کے حوالے سے؟