طبقاتی تقسیم، قبائلی سوچ اور نیشنل ازم – نادر بلوچ

552

طبقاتی تقسیم، قبائلی سوچ اور نیشنل ازم

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مذہب میں فرقہ واریت نے جس طرح انسانی سماج کو تقسیم کیا، بلکل اسی طرح سوشل ازم نے بھی سماج اور قوموں کو طبقے کے بنیاد پر تقسیم کی۔ مذہب اور سوشل ازم قومی آزادی اور یکجہتی کا کوئی بھی حل پیش نہیں کرسکے، جبکہ نیشنل ازم کی بنیاد ہی قوم سے جوڑی ہے، اس لیئے کوئی کیپیٹلسٹ ملک ہو یا سوشلسٹ یا پاکستان جیسی غیر فطری ریاست ہو، ہمیشہ نیشنل ازم کو مسخ کرکے اپنے دفاع کیلئے استعمال کرتی ہے۔ نیشنل ازم سے انکار کرنے والے نظریات بھی مشکل وقت میں اپنے مفادات کیلئے نیشنل ازم کو استعمال کرتی ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ دنیا میں امن و خوشحالی کیلئے آنیوالی صدیوں میں نیشنل ازم کی جانب انسانیت کو آنا پڑے گا۔

بلوچ قومی تحریک جہاں قبضہ گیریت کے خلاف اپنی ستر سالہ جہد، شہداء،اسیران، ماوں بہنوں کی سسکیوں، طویل صبر آزمائی کی وجہ سے بمشکل عالمی سطح پر نمودار ہوا ہے۔ وہیں پر طبقاتی سوچ اور قبائلیت کی بنیاد پر نفرتوں کی وجہ سے آج بھی تنظیمیں بلوچ سیاسی کارکن، دانشور نیشنل ازم کو سائنسی بنیادوں پر بلوچ سماج میں اجاگر کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ جسکی بنیادی وجہ تحریک سے منسلک دانشور، سیاسی کارکنان، نیشنل ازم کی جانب لوٹنے میں رکاوٹ طبقاتی سوچ، قبائلیت، قبضہ گیر کے وفاقی نظریات رہی ہیں۔ سیاسی کارکنان، دانشور، تنظیم، قومی یکجہتی کی کوششوں میں مددگار ہونے کی بجائے فریق بن کر اپنی من مانی کیلئے ایک گروپ سے دوسرے گروپ کی جانب ہاتھ بڑھانے کیلئے طبقاتی سوچ، اور قبائلیت جیسی منفی جذبات کا سہارا لیکر عمل کا حصہ بنتی ہیں، تو نیشنل ازم کی نفی ہوتی ہے۔

قبائلیت،علاقائیت کی بنیاد پر تقسیم ہو یا طبقات کی بنیاد پر قومی تحریک کی تقسیم، خود یکجہتی اور اتحاد کی جانب سماج کو جانے سے روکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سماج میں تبدیلی کا عمل جاری رہتی ہے۔ لیکن یہ تقسیم ہی صرف سماج کا حصہ نہیں ہے، جن سے سماج نبرد آزماء ہے۔ اس لیئے اس عمل میں وقت لگتی ہے۔ اس شعور کو بھی اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کہ ایسی سوچ قومپرستی کو کس حد تک نقصان دیتی ہے؟ جبکہ طبقاتی تقسیم،علاقائیت، قبائلیت کی جو وجوہات ہیں جن کی سرکوبی ضروری ہے کہ وہ کون کون سی مشکلات ہیں جن کی وجہ سے قومی تحریک تقسیم کا شکار رہی ہے۔ تقسیم کی وجوہات کوئی ایک نہیں بلکہ ایسی وجوہات میں قبائلیت، جس کی بنیادیں ہزاروں سالوں کی تاریخ رکھتی ہیں، بلکہ یہ وہ ڈھانچہ ہے جو بلوچ نیشنل ازم اور یکجہتی کے بعد، وہ پہلا نظام ہے جس کی بنیاد پر بلوچ قوم اپنی سیاسی، معاشی، علمی اور دفاعی ضروریات پوری کرتی رہی ہے۔

آج اگر دنیا میں بلوچ قوم دنیا کی دیگر علوم کا استعمال کر کے بھی ایک نیا سیاسی وسماجی نظام متعارف کرتی ہے، تو اس عمل کو پورا ہوتے ہوئے کم سے کم ایک صدی درکار ہوگی اور یہ تب ہی ممکن ہے، جب اسکے اصول نینشنل ازم پر مبنی ہوں۔ جسکے لیئے تعلیم، شعور اور اداروں کی بنیاد پر ازسر نو تنظیم، ترکیب درکار ہو گی۔ ان ادروں میں بشرط اصل نیشنل ازم ہی بنیاد بنے۔ طبقاتی سوچ کے شکار بعض دانشور اکیسویں صدی میں اپنے ہی قوم کے خلاف خونی انقلاب کی بنیاد پر سماج میں تبدیلی کی کوشش کو صحیح سمجھتے ہیں۔ ایسا کوئی ناقص العقل ہی سوچ سکتا ہے۔ دوسری تقسیم بلوچ سماج کی مذہب کی بنیاد پر غاصبوں کے ذریعہ بلوچ قوم کو ملی ہے۔ آج بلوچ سماج میں سردار سے زیادہ مولوی خطرناک صورت اختیار کرتے جارہے ہیں۔ سردار تو خود بلوچ نیشنل ازم کی بنیاد پر بننے والی قبائلی نظام کا حصہ ہیں۔ بلوچ نیشنل ازم کے جدید تقاضوں کے مطابق ارتقائی عمل کے مطابق ایک نہ ایک دن ان سماجی وضع کردہ قوانین میں ڈھل جائِیں گے۔ لیکن بلوچ قومی یکجہتی کو ممکن بنانے کیلئے جو دوسری بڑی بیماریاں ہیں، وہ درآمد نظریات ہیں۔

قبضہ گیر کی وفاقی نظریات، مذہب اور سوشل ازم کی عالمی نظریات، یہ دونوں غیروں کے نظام ہیں اس لیئے یہ دونوں بلوچ قوم کیلئے درآمد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ یہ نظریات خود نیشنل ازم سے متضاد اور نفی ہیں۔ بد قسمتی یہ ہے کہ قوم میں جن حصوں پر یہ دونوں درآمد نظریات غالب ہوئی ہیں، وہ بلوچ قوم کی رہنمائی سے قاصر ہیں۔ قاصر کیوں نہ ہوں۔ ان کا بلوچ قومی نفسیات سے میل ہی نہیں، بلوچ قومی نفسیات نیشنل ازم کی بنیاد پر بنی ہے۔ جبکہ اسکو نیشنل ازم کی بجائے مزید تقسیم کرنے کیلئے مذہب کی بنیاد پر فرقہ بندیوں اور سوشل ازم کی بنیاد پر طبقاتی سوچ کے ذریعہ ہانکنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ نیشنل ازم سے دوری اور غاصب قوتوں کی زیادتیوں نے بلوچ سیاسی کارکنوں، دانشوروں، سیاسی تنظیموں، کو کبھی حقیقی نیشنل ازم کے دائرہ کار، بنیادی تحقیق، کی جانب متوجہ ہی نہ ہونے دی، اس لیئے آج جو سیاسی کارکن یا تنظیمیں نیشنل ازم کی بنیاد پر جد وجہد کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ نعرہ کی حد تک تو ٹھیک ہیں لیکن سوشلسٹ نظریات کی اثرات کی بنیاد پر آج بھی وہ بلوچ قوم کو طبقاتی،علاقائیت، اور تقسیم کی سوچ کو فروغ دینے جیسا عمل کررہے ہیں۔ جسکا اظہار وہ تحریروں اور تقریروں سے کرتی رہتی ہیں۔

سو سالہ تجربات سے بھی زیادہ عمل کے میدانوں میں بسر کرنے والے بلوچ سیاسی کیڈر آج بھی بلوچ قومی آزادی کے مسئلے کا حل طبقاتی تقسیم پیدا کر کے کرنا چاہتے ہیں۔ مذہب اورسوشلسٹ نظریات اور انکے پیروکاروں سے کوئی گلہ ممکن نہیں کیونکہ انسانی آزادی کے نظریہ پر ان سے کافی اختلافات ہو سکتے ہیں۔ بلوچ قومی تحریک کو نیشنل ازم کی بنیاد پر سمجھنے والے تحریک پر سوشل ازم کے نصاب کو رائج کرکے بلوچ قومی تحریک کو طبقاتی سوچ سے اپاہج بنانے کی کوشش کرنا کیا معنی رکھتی ہے؟ قبائلی نظام ایک فرسودہ نًظام ہے، اس سے کوئی انکاری نہیں لیکن اس نظام کیلئے کامل نیشنل ازم کو فرد سے لیکر تنظیموں تک اپنانا ہوگا۔ متبادل نظام، قوم کے معاشی مسائل، قبضہ گیر کے ظلم و ستم سے تحفظ، بلوچ قوم قومی غلامی کے بدترین دور سے گذر رہی ہے۔ آج بلوچ قومی تحریک میں متحرک سردار یا سردار زادے کسی کی راہ میں روکاوٹ نہیں بلکہ سرکار اپنی کاونٹر انسرجنسی پالیسوں کی تحت آزمودہ اور نئے سرداروں کی صورت میں آج بھی بلوچ سماج کو منتشر کر رہی ہے۔ جبکہ سوشل ازم کے تحت طبقاتی تقسیم کے شکار دانشور قومی تحریک میں متحرک رہنماوں کو انکے سردار گھرانوں سے ہونے کی بنا پر حدف تنقید بنا رہی ہیں۔

قوم اورسیاسی کارکنان نیشنل ازم کی روح کی بحالی تک مسائل کا شکاررہیںگی۔ لیکن ان مسائل کاحل نفرتوں کے زریعے ممکن نہیں۔ گوہرام و چاکر سے لیکر نوری نصیر خان تک جس نیشنل ازم کے تحت بلوچ قوم کی تشکیل ہوئی ہے۔ اس کو کھبی قومی نصاب کے شکل نہیں دی، بلکہ نفرتیں اور تقسیم کی حوصلہ افزائی کرتے رہے ہیں۔ نوری نصیر خان کی کوششوں سے بلوچ قوم منظم ہوکر ایک متحدہ ریاست کی تشکیل میں کامیاب تو ہوئی، لیکن مذہب سے نصیر خان کے لگاؤ نے انکو نیشنل ازم کی فروغ کی جانب مزید کام کرنے نہیں دیا۔ بلکہ وہ شریعت کو ریاستی نظام کا حصہ بناکر لاگو کرنے میں مشغول ہوگئے، جو نیشنل ازم کے لیئے منفی ثابت ہوئی۔

اس غلطی کی جھلک پاکستان کے ساتھ جبری الحاق کے وقت بھی دیکھنے میں آئی۔ قبائلیت کے منفی پہلووں کے خاتمے سے کوئی باشعور انسان انکار نہیں کرسکتا لیکن اسکا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم تاریخی حقائق سے انکار کریں اور انگریز کے حملے اور قبضے کو روکنے میں ناکامی کو قبائلیت کے نام کریں، بلکہ بلوچ ریاست قلات کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسکے برطانیہ کے ساتھ معاہدے کے تحت برٹش بلوچستان کو انگریزوں کے عمل داری میں دی تھی۔ جبکہ اس زمانے میں انگریز ہی برصغیر کی طاقت ور اور واحد مالک تھی۔ کیا قبائلیت کو ہی قصور وار قرار دیں۔ جبکہ قومی غلامی میں جانے کی کوئی ایک وجہ نہیں ہوتی بلکہ متعد وجوہات ہوتی ہیں۔ جن میں معاشی، سیاسی، انفردی، اجتماعی کمزوریاں ہوتی ہِیں۔ جبکہ نیشنل ازم میں انکا حل موجود ہے۔ قبضہ گیر کی وفاقی نظریات، مذہب یا سوشل ازم دونوں نے بلوچ نیشنل ازم اور بلوچ قومی تحریک کو نقصان دینے کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔

بلوچ سیاسی تنظیموں، دانشور، بلوچ قوم کی رینمائی کیلئے جدید نیشنل ازم کو اجاگر کریں۔ تاکہ تحریک کو طبقاتی،قبائلی،علاقائی جیسے فرسودہ سوچ سے بچا کر قومی یکجہتی کو یقینی بنانے کیلئے نیشنل ازم کی سوچ کے بنیاد پر ہر عمل کو جانچنے کیلئے معیار اپنائیں۔