قوم پرستی: قوموں کی بقاء کا ضامن – لطیف بلوچ

511

قوم پرستی: قوموں کی بقاء کا ضامن

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

نیشنل ازم ٹکڑوں میں بٹے پشتون قوم کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کرسکتی ہے اور قوموں کی بقاء و قومی مسائل سے نجات کا ذریعہ صرف نیشنل ازم میں پوشیدہ ہے، نیشنل ازم قوم کے تمام طبقات کو یکجاء کرکے ایک لڑی میں پرو دیتا ہے، قوم اور وطن سے بے لوث محبت سکھاتا ہے۔ آج پشتون معاشرے میں جتنے سیاسی و سماجی مسائل پیدا ہوچکے ہیں، یہ سب مسائل قوم پرستانہ سیاست سے دوری کی وجہ سے جنم لے چکے ہیں۔ جب پشتون حقیقی معنوں میں نیشنل ازم کے بنیاد پر جدوجہد کررہے تھے، پشتون سماج کو نفرت، تعصب، انا پرستی جیسے موذی امراض لاحق نہیں تھے اور نہ ہی پشتون مذہبی جنونیت کی طرف راغب تھے لیکن جب وہ اپنے نظریات، قوم پرستی اور قوم دوستی سے دور ہوگئے تو پشتون مذہبی جنونیت اور مفاد پرستانہ سیاست میں کود پڑے، جس سے پشتون سماج ٹوٹ و پھوٹ کا شکار ہوگیا۔ سیاسی انارکی، قومی انتشار، مذہبی جنونیت پروان چڑھ گئی، روشن خیال، ترقی پسند، قوم دوست پشتون قوم مذہبی انتہا پسندی، مفاد پرستی، لالچ کی طرف چلے گئے۔ اپنے سیاسی اور ثقافتی اقدار و نظریات کو خود روندتے گئے، جس وجہ سے پشتون سیاسی، سماجی، فکری، علمی، معاشی تباہی کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ریاست کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے۔

ریاست نے ایک طرف طالبان بناکر پشتون معاشرے میں دہشت گردی کے بیج بو کر پشتونوں کی نسل کشی کا آغاز کیا، اس دہشت گردی نے پشتونوں کو انتہائی نقصان سے دو چار کردیا، پرامن، انسان دوست پشتون سماج میں خود کش بمبار پیدا ہوگئے اور دوسری طرف ریاست نے معاشی طور پر تباہ حال پشتونوں کو ایف سی اور فوج میں بھرتی کرکے بلوچ قوم سمیت دیگر مظلوم اقوام کے خلاف استعمال کرنا شروع کیا۔

بلوچ قوم پرستانہ آزادی کی تحریک کو کچلنے کے لئے پشتونوں کا بےدریغ استعمال کیا گیا اور اب بھی کررہا ہے، ایک مظلوم کے ہاتھوں دوسرے مظلوموں کا قتل عام سامراجی و نوآبادیاتی قبضہ گیر ریاستوں کا ایک پرانا چال ہے، سامراجی قوتوں کے ایسے سازشوں کو اُس وقت ناکام بنایا جاسکتا ہے، جب ہم نیشنل ازم کو سمجھ لیں اور اس پر عبور حاصل کریں، جب ہم قوم پرست بن جائیں گے، اپنے قوم و سرزمین سے محبت کرینگے، قوم پرستی کی اہمیت اور قوموں کی عظمت کو سمجھ لیں گے پھر کسی صورت بھی کسی دوسرے اقوام کے لوگوں کا قتل اپنے معاشی ضرورتوں کے لیئے ہرگز نہیں کرینگے۔

اسی طرح بلوچ قوم پرستی کے نظریاتی سیاست کو بھی مذہبی جنونیوں، سوشل ازم کے تعلیم، پارلیمانی سیاست اور مفاد پرستی کے ذریعے تقسیم اور کمزور کیا گیا، جب بلوچ نیشنل ازم کے نظریات و فلسفے سے دور ہوئے تو بلوچ سماج میں مختلف الخیال نظریات پروان چڑھ گئے، مذہبی انتہا پسندوں کو بلوچ معاشرے میں اسپیس دیا گیا، مذہبی منافرت، مذہبی دہشت گردی اور لسانی و طبقاتی تقسیم کے ذریعے روشن خیال بلوچ معاشرہ اور قوم پرستانہ نظریات رکھنے والی بلوچ قوم کوتقسیم کیا گیا قبضہ گیر نے پنجاب سے لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد تنظیموں کو درآمد کرکے بلوچستان کو انتہا پسندوں کا آماجگاہ بنادیا۔

یہ سب کچھ بلوچ و پشتون معاشروں میں نظریہ ضرورت کے تحت لاکر پروان چڑھایا گیا تاکہ بلوچ و پشتون غلامی کے زنجیروں میں قید رہیں، پاکستان کے چیرہ دستیوں اور جبر کا شکار رہیں اور اُن کے سرزمینوں و وسائل پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ برقرار رہ سکے۔ اگر ایسے درآمد قبضہ گیروں کو بلوچ و پشتون شکست دینا چاہتے ہیں، تو اِن اقوام کو نیشنل ازم کی جانب محو سفر ہونا پڑے گا کیونکہ قوم پرستی و قوم دوستی مذہبی منافرت، طبقاتی تقسیم، لسانی نفرتوں کو تسلیم نہیں کرتی مذہب، رنگ و نسل اور زبان کے امتیاز کو ختم کرتا ہے، قوم پرستی میں باقی تمام حیثیتیں اور شناختیں پس پردہ چلی جاتی ہیں اور صرف ایک شناخت ابھرتی ہے وہ ہے قوم کی شناخت، قوم کے تمام طبقوں کو یکجاء کرکے اُنکے درمیان محبت، رواداری، برداشت، قومی یکجہتی، امن پسندی اور اخلاقی اقدار کو بحال کرتا ہے۔

افریقی سیاست دان و مصنف انٹن کم بی دے قوم پرستی کے متعلق لکھتے ہیں، دور جدید کی تاریخ قوم پرستی کی تاریخ ہے، قوم پرستی عوامی جدوجہد اور جنگ کے الاؤ میں آزمودہ نسخہ اور غیر ملکیوں کے تسلط اور جدید سامراجیت کے زہر کا کامل تریاق ہے، یہی سبب ہے کہ بڑی بڑی سامراجی طاقتیں اپنی قوت اور ہیجانی جدوجہد سے محکوم قوموں میں قوم پرستی کے رحجانات کی حوصلہ شکنی کے درپے ہیں، اس مقصد کے لیئے بڑی بڑی رقومات نہایت فیاضی سے خرچ کی جاتی ہیں تاکہ قوم پرستی کی تشہیر بطور تنگ نظری، بربریت اور شیطانی انداز فکر کے کرسکیں۔ کچھ اجنبی محکوم اس پروپیگنڈے کے فریب میں آکر سامراجیت کا آلہ کار بن جاتے ہیں، اس کے صلے میں ان کی خدمات کو سراہا جاتا ہے اور ان کیلئے مہذب، روشن، خیال اور ترقی پسند اور عالی ظرف جیسے القابات استعمال کیئے جاتے ہیں۔

پاکستان میں نیشنلزم کے سامنے بند باندھنے، قومی سوال کو دبانے اور اقوام کو غلام بنائے رکھنے کے لیئے مذہبی قوتوں، وفاقی پارٹیوں، لاہوری سوشلسٹوں کا استعمال کیا جارہا ہے، قوم پرست نظریات کو تنگ نظری، نسل پرستی جیسے سوچ سے نتھی کیا جاتا ہے، اس مقصد کے لیئے ان قوتوں کی بے دریغ فنڈنگ کی جاری ہے، جو قومی تحریکات کا رخ غیر محسوسانہ انداز سے موڑنے اور قومی اہداف کے بجائے قوموں کو انسانی حقوق، انسانیت اور مسلمانیت جیسے چیزوں میں الجھانے کی کوشش کرتے ہیں، درحقیقت یہ چیزیں قوموں کا درد سر نہیں۔

افریقی ادیب وول سوئنکا لکھتے ہیں، افریقی قوم کے دو دشمن ہیں، یورپی استعماریت اور عرب اسلامی جارحیت، ان دونوں نے ہماری آزادی پر حملہ کیا اور ہمیں غلام بنانے کی کوشش کی، تیسری دنیا کے مفلوک الحال قومیں کھبی سوشلزم کی محکوم رہیں، کھبی سرمایہ داری کی، کھبی اسلام نے انہیں مغلوب کرنے کی کوشش کی، کھبی عیسائیت نے، دونوں سرمایہ داری اور مذہبی روایتوں نے افریقی قوم کا حتی المقدر استحصال کرنے کی کوشش کی ہے۔”

آج ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ قوم کو بھی کھبی سوشلزم، کھبی مذہبی نظریات کے ذریعے مغلوب کرنے اور قومی آزادی کے تحریک کو تقسیم کرنے کی سعی اور قوم پرستی کے رحجانات کی حوصلہ شکنی کی کوشش کی جاتی ہے، پشتون تحفظ موومنٹ کی تحریک کو بھی لاہوری سوشلسٹوں اور مذہبی قوتوں کے ذریعے ہائی جیک کرنے کی بھر پور چالیں چل رہے ہیں، پشتون قومی تحریک کو انسانی اور شہری حقوق کی تحریک بنانے اور اُنھیں مزید پاکستانی غلامی میں گذارا کرنے کی ترغیب دی جارہی ہے، لیکن بلوچ، سندھی اور پشتونوں کی اپنی ایک جداگانہ تہذیب، ثقافت، زبان اور جغرافیائی حدود اور تاریخی سرزمین ہے۔ ان اقوام کو جبری طور پر پاکستان کے نام نہاد فریم ورک میں مذہب کے بنیاد پر قید کرکے رکھا گیا ہے۔ لہٰذا حقیقی قوم پرست، وطن دوست قوتوں اور کارکنوں پر یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم پرستی کا بہتر انداز اور محکم دلائل سے دفاع و ترویج کریں کیونکہ پشتون، بلوچ، سندھی تحریکوں کی بقاء قومی جدوجہد اور نیشنل ازم میں ہی پیوست ہے۔