سرفراز! آپ نے سر نہیں جھکایا ۔ سہیل بلوچ

399

سرفراز! آپ نے سر نہیں جھکایا۔۔۔

تحریر:سہیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جنگ آزادی میں ہرکسی کے جدوجہد کرنے کا اپنا ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ہر کوئی اپنے بساط کے مطابق آزادی یا انقلابی جنگوں میں اپنا حصہ ڈالتا رہتا ہے، تب جا کر قومیں آزاد ہوتی ہیں۔ قلم کار اپنے مطابق طالب علم اپنے طریقے دانشور، گلوکار، شاعر، کسان، مزدور ہر کسی کا اپنا کردار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ہمدردی تک محدود ہوتے ہیں اور کچھ عملی میدان میں آکر اپنے کردارکو نبھاتے ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں پاکستانی ظلم کی داستانیں آسمان کو چھو رہے ہیں اور پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی آنکھوں میں ہر بلوچ فرزند صرف اورصرف دہشت گرد ہے۔ کئی بلوچ فرزند اس وقت پاکستانی اذیت گاہوں کی زینت اسلیئے بنے ہیں کہ وہ صرف بلوچ ہیں۔ اگر آج بھی ہم موت سے ڈرینگے توپھر بھی موت ہم پر حاوی ہے۔ تو ہمارے سامنے صرف ایک راستہ بچا ہے کہ ہم بلوچ قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کریں۔

یہ سب کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر ہم اپنے آزادی کی جنگجوؤں کی مدد نہیں کریں گے، تو آسمان سے کوئی فرشتہ ہماری مدد کرنے کونہیں آئے گا، اگر ہمیں اس آگ سے نکلنا ہے تو ہمیں خود کوشش کرنا ہوگا۔

پاکستان نے آج نہ ہمارے عالموں کو بخشا ہے، نہ کہ مزدوروں، کسانوں،شاعروں،ادیبوں، عورتوں، بچوں کو بخشا ہے۔ پاکستان آج ہمارے ادیب،دانشور اور عالم دین کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے۔ عالم دین کی بات کریں توان میں مولانا عبدالحق، مولاناعبدلخالق جو حق اور سچ کی بات کرتے تھے، پاکستان نے انہیں اسلیئے شہید کیا کہ پاکستان ان لوگوں کی زبان اور قلم کو خاموش کرنا چاہتا تھا۔ اسطرح کے حرکتوں سے پاکستان سچائی کوچھپا نہیں سکتا۔ پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی داستانوں کی فہرست آج بلوچستان میں بہت بڑی ہے۔

انہیں ظلموں کا شکار ایک شہید سرفراز بلوچ ہے، جس نے اپنی آنکھیں مشکے گجر میں محمد حیات کے گھرمیں کھولی۔ سرفراز نے ابتدائی تعلیم مدرسہ انورالعلوم مشکے گجرسے شروع کی۔ اور مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیئے اس نے کراچی کا رخ کیا۔ کراچی شیرشاہ میں جامعہ محمدی میں داخلہ لے کر اپنے پڑھائی کوجاری رکھا۔

شہید سرفراز بلوچ بہت زہین انسان تھا، ہر مسلئے کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتاتھا، ہنس مکھ اور مزاق کرنے والے تھا، اسکے علاوہ ایک ذمہ دار ساتھی تھا، وہ چھٹیاں گذارنے جب بھی مشکے جاتا، تو اپنے گھرمیں نہیں ہوتاتھا، وہ ہر وقت شہید ڈاکٹر منان کے ساتھ ہوتا تھا، ڈاکٹر منان کے ساتھ بیٹھا کرتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ڈاکٹر منان جیسے عظیم ہستی کے محفل میں بیٹھ کر بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔

ہروقت (BNM) کے ساتھیوں سے ملتا رہتا تھا بی این ایم کے ساتھی شہید سرفراز کو ہوچی کے نام سے پُکارتے تھے۔ وہ ہر وقت کہتا تھا کہ پاکستان اسلام کے نام سے ساری دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے، جوخود ایک دہشتگرد ملک ہے لیکن جھوٹ اورمکاری سے دنیا کو دھوکہ دے رہاہے۔ جس نے بنگلہ دیش کے معصوم عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کے علاوہ انکے ماں بہنوں کے ساتھ کیا سلوک کیا، یہ ہم کو اچھی طرح پتہ ہے لیکن اسکے باوجود ہم آج خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں، بنگلہ دیش والے کل اس واقعے سے گذر چکے ہیں، آج یا کل ہمیں بھی اسی حالت سے گذرنا پڑے گا، لیکن بلوچ قوم جو جنگ لڑرہا ہیں اس جنگ میں انکے ساتھ ہمیں ہر طرح کی قربانی سے گریزنہیں کرنا چاہیئے، ہمیں ایک منظم جنگ لڑنی ہوگی وگرنہ ہمارے ماں بہنوں کے ساتھ پاکستان بنگالیوں جیسا سلوک کریگا۔ جو ہمارے ننگ ناموس کو پامال کریگااگر نہیں لڑینگے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے ماں بہنوں کوخود اُن درندوں وحشیوں کے حوالے کر رہے ہیں۔

شہید سرفراز ایک قابل دوست ہونے کے ساتھ ساتھ ہر کام میں اؤل تھا، اسے مارچ 2015 کو خفیہ اداروں اور آرمی کے اہلکاروں نے اُنکے مدرسے سے اٹھایا تھا، جو اس وقت کلاس رابیۂ میں زیر تعلیم تھا۔ وہ ایک طویل عرصہ پاکستانی زندانوں میں بند رہا لیکن کسی کو اسکی خبر تک نہیں ہوئی۔

2017 کو جب کسی دوست کو پاکستانی آرمی نے کچھ لوگوں کے ساتھ رات کو اُنکے گھر سے اغوا کیا تھا، تو اُس نے سرفراز کو جیل میں دیکھا تھا۔

بقول اس شخص کے “جب ہمیں فوج نے گھر سے اٹھاکر کیمپ میں بند کیا تو ہم پر بہت تشدد کرنے کے بعد ہمیں ایک کالی کوٹھڑی میں بند کیا، ہم بہت گھبرائے ہوئے تھے، ڈر کے مارے کانپ رہے تھے کہ کیا ہوگا تو وہ رات انتہائی خوف سے گذرا،اور کب دن میں بدلہ پتہ نہیں چلا لیکن وہ خوف دور نہ ہوسکا، مگراتنے میں ہمیں ایک آواز سنائی دی جو جانی پہچانی سی آواز تھی، تو میں نے دیکھا میرے سامنے والے کوٹھی میں سرفراز ہے۔

جس کوانکی والدہ کتنے وقتوں سے پاگلوں کی طرح ہر کسی سے پوچھ کر ڈھونڈ رہی ہے، لیکن کسی کو اسکے بارے میں کوئی خبر تک نہیں تھا۔ اس نے کہا جب میں نے سرفراز کو دیکھا تو اس نے ہمیں بھی دیکھ لیا۔ میں اور میرے دوست بہت گھبرائے اور ڈرے ہوئے تھے، اس نے ہم سے کہا ارے دوستو! ڈرنا مت جیل ہونا، زندان میں اذیت سہنا اور مار کھانا مردوں کا کام ہے یہ ڈر اپنے دل سے ختم کرو۔ اس کی باتیں سن کر ہمیں ایسا لگا کوئی ہمارے زخموں کومرہم پٹی کر رہا ہے، زخم ٹھیک ہو رہے ہیں۔

ہم نے پوچھا آپ کیسے یہاں؟ اس نے کہا کہ مجھے کراچی میں میرے مدرسہ سے اٹھایاگیا ہے اور مجھے پہلے خضدار میں رکھا گیا، بعد میں مجھے کچھ دن پہلے مشکے کیمپ لایا گیا، نہ جانے کیوں شاہد مجھے بازیاب کیا جا ئیگا۔

زیادہ بات نہ ہوسکا، دوسرے روز فجر کے وقت جب گاڑیوں کی آواز آئی تو ہم نے سوچا کہ کوئی کانوائے ہوگا، مگر افسوس کہ وہ گاڑیاں کانوائے کے نہیں تھے، لیکن ہم نے سرفرازکو پھر کبھی نہیں دیکھاہم نے سوچا کہ شاہد اسے بازیاب کیا گیا ہے، کچھ دن گذرنے کے بعد جب ہمیں بازیاب کیاگیا، تو مجھے بتایا گیا کہ سرفراز کو چار اور ساتھیوں کے ساتھ شہیدکیا گیا ہے تو مجھے بہت درد ہوا۔

آج پاکستانی فوج اور خفیہ اداروں کی شکست یہاں ظاہر ہوتا ہے، اگر حق کے بارے میں کوئی بھی ایک بات کہے تو انکو خاموش کرنے کیلئے انکو شہید کیا جاتاہے۔ سرفرازآپ کو سرخ سلام آپ نے دوسروں کی طرح سر جھکایا نہیں۔