ترکی میں ایک نئے فرمان کے تحت حکام نے مختلف محکموں سے تعلق رکھنے والے ساڑھے اٹھارہ ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کو برطرف کردیا ہے اور ملک بھر میں بارہ تنظیموں ، تین اخبارات اور ایک ٹیلی ویژن چینل کے دفاتر بھی بند کردیے ہیں۔
ترکی کے سرکاری گزٹ میں اتوار کو شائع کیے گئے فرمان کے مطابق برطرف شدہ 18632 ملازمین میں 8998 پولیس افسر اور اہلکار ہیں ۔انھیں دہشت گرد تنظیموں اور گروپوں سے تعلق اور قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے الزام میں برطرف کیا گیا ہے۔
سرکاری حکم کے تحت برطرفیوں کی تلوار مسلح افواج کے اہلکاروں پر بھی چلائی گئی ہے اور آرمی کے 3077 فوجیوں، فضائیہ کے 1949 اہلکاروں اور بحریہ کے 1126 اہلکاروں ملازمتوں سے نکال دیا گیا ہے۔
وزارت انصاف اور اس سے متعلقہ اداروں کے 1052 ملازمین ،نیم فوجی دستوں جینڈر میری کے 649 ارکان اور 192 ساحلی محافظوں کو بھی فارغ خطی دے دی گئی ہے۔نئے فرمان کے تحت 199 اساتذہ کو سبکدوش کیا گیا ہے جبکہ فوج اور مختلف وزارتوں سے تعلق رکھنے والے 148 ملازمین کو بحال کردیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جولائی 2016ء میں صدر رجب طیب ایردوآن کے خلاف ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترکی میں ہنگامی حالت نافذ ہے اور اس کی مدت میں نو مرتبہ توسیع کی جاچکی ہے۔ترک میڈیا کے مطابق سرکاری ملازمین کی برطرفی کا یہ آخری حکم نامہ ہوسکتا ہے اور ہنگامی حالت بھی سوموار کو ختم ہونے کا امکان ہے۔موجودہ ہنگامی حالت کے حکم کی مدت 19 جولائی کو ختم ہوگی۔
قبل ازیں جولائی 2016ء کے بعد سے ہنگامی حالت کے حکم ناموں کے تحت ایک لاکھ دس ہزار سے زیادہ سرکاری ملازمین کو برطرف کیا جاچکا ہے جبکہ مزید ہزاروں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے الزام میں معطل کردیا گیا تھا۔
ترکی نے امریکا میں مقیم مبلغ علامہ فتح اللہ گولن پر صدر طیب ایردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مسلح فوجی بغاوت کے تانے بانے بننے کا الزام عاید کیا تھا۔ ترک حکومت نے جن سرکاری ملازمین کو برطرف یا معطل کیا ہے، حکومت کے مطابق ان میں سے اکثریت کا تعلق گولن تحریک ہی سے ہے۔
حکومت اس کو ’’فتح اللہ دہشت گرد تنظیم‘‘ کے نام سے پکارتی ہے اور اس نے اس سال کے اوائل میں کہا تھا کہ اس تنظیم سے تعلق کے الزام میں 77 ہزار سے زیادہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔تاہم علامہ فتح اللہ گولن نے ناکام بغاوت سے لاتعلقی ظاہر کی تھی اور ان کا بالاصرار کہنا ہے کہ ان کی تنظیم پُرامن ہے۔