ریاستی انتخابات، حکمت کا تقاضہ
جیئند بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
25 جولائی کو قابض پاکستان کی پارلیمنٹ کی نمائندگی کے لیئے انتخابات کا اعلان کردیا گیا ہے، جس کے تحت پاکستان نواز جماعتیں بلوچستان میں 2013 کی نسبت اس مرتبہ زیادہ سرگرم نظر آرہی ہیں۔
۲۱۰۳کے پاکستانی انتخابات بلوچ آزادی پسندوں کی اپیل پر عام لوگوں کی بائیکاٹ کے سبب بلوچستان میں بری طرح ناکام ہوئے تھے۔ خود پاکستانی اداروں اور انٹر نیشنل اداروں کی رپورٹوں کے مطابق پورے بلوچستان میں مجموعی ووٹنگ کی شرح 3فیصد سے بھی کم ریکارڈ کیا گیا،جو پاکستانی قبضہ سے لے کر اب تک کی کم ترین شرح تھی۔
اس کم شرح کے باوجود قبضہ گیر ریاست نے الیکشن نتائج نا صرف تسلیم کیئے، بلکہ تربت جیسے گنجان آباد علاقہ جہاں رجسٹرڈ ووٹ 70 ہزار سے زیادہ ہیں ڈاکٹر مالک کو رگنگ اور ٹھپہ ماری کے محض 300 ووٹوں کے ساتھ وزیر اعلیٰ بنادیا جبکہ بعد میں آوران سے محض تقریباً 500 ووٹ جن میں جعلی ووٹ بھی شامل تھے، لینے والے قدوس بزنجو کو یہی منصب عطا گیا۔
ڈاکٹر مالک اور قدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کا منصب دینا گویا اس کا اظہار تھا کہ خود پاکستان بھی اپنی پارلیمنٹ کو کیا اہمیت دیتا ہے، مگر اس سے بڑھ کر ریاست کو یہ یقین دلانا بھی مقصود تھا کہ چاہے عوام کے لیئے نا منظور سہی لیکن ایسے اشخاص ریاست کے لیئے بہتریں اور قیمتی شمار ہوتے ہیں، جو بلوچ آزادی کی تحریک کے خلاف ریاست کی صف میں کھڑے ہیں۔
گوکہ 2013 کے عام انتخابات کے نتائج کو بلوچ آزادی پسند حلقوں نے ریفرنڈم تسلیم کر کے عالمی اداروں کو اپنے موقف کی حمایت کی اپیل کی تھی، مگر وہ اس کو موثر اور اپنے حق میں کامیاب نتیجہ بنانے میں ناکام رہے۔ جس کے کئی وجوہات ہوسکتے ہیں۔ ناکامی کے ان وجوہات پر بلوچ آزادی پسند قیادت اور جماعتوں کو غور کرنا اور حکمت عملی ترتیب دینا چاہیئے تھا، مگر وہ اس میں بھی ناکام رہے۔
اب جبکہ 2018 کے الیکشن سر پر ہیں، پانچ برس قبل اور آج کی صورتحال کا غیر جانبداری اور جذباتی پن سے ہٹ کر موازنہ کیا جائے تو کئی تلخ تجربات سامنے آتے ہیں۔ جو مثبت پوزیشن یا عوامی ہمدردی آزادی پسندوں کے لیئے پانچ برس قبل موجود تھے کیا اب بھی ہیں؟ اس پہ جذباتی پن سے ہٹ کر زمینی حقاحق کے مطابق بحث کرنا اور نتائج تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ ہم ہمیشہ اپنے زعم میں مبتلا حقائق کی سمت دیکھنے سے روگردانی کرتے رہینگے۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پانچ برس کے بعد ریاست اپنے جبر، تشدد، بربریت اور انسانی حقوق کی بے دریغ پامالیوں کے باوجود الیکشن کے لیئے 2013 کی نسبت گراؤنڈ بہتر بنانے میں کامیاب ہوئی ہے۔
ریاست کی حکمت عملی کہیئے کہ اس بار پورے بلوچستان میں ریاستی خوف اور ڈر کی موجودگی کے باوجود الکیشن کی تیاریاں زوروں سے جاری ہیں۔ سیاسی جماعتیں متحرک اور عام لوگ لالچ، ڈر اور مراعات کے بل پر انتخابی دنگل ڈالنے کے لیئے کامیاب کوشش کررہے ہیں۔ آزادی پسندوں کی جانب سے انتخابی بائیکاٹ کی اپیل سامنے آنے کے باوجود اب تک اثر پذیری حاصل نا کرپائی ہے۔
ایسے میں متحرک بلوچ قیادت اور جماعتوں کو ایک بار پھر سنجیدگی سے اپنا احتساب، پالیسیوں پر غور، سابقہ تجربات اور ناکامیوں پر ٹھنڈے دل سے غور کر کے نئی حکمت کے ساتھ عوام کے پاس جانا چاہیئے۔