میرا نادان دشمن – چاکر زہری

347

میرا نادان دشمن

تحریر: چاکر زہری

دی بلوچستان پوسٹ

میرا دشمن تُو کتنا نا سمجھ، بےخبر اور نادان ہے۔ تیری بے خبری اور نادانی کی انتہا یہ ہے کہ تم مجھے قتل کر کےخوش ہوتے ہو اور تیرے حواری شادان ہوتے ہیں کہ فلاں کو ہم نے مار دیا، فلاں کی لاش پھینک دی، فلاں کو تختہِ دار پر لٹکا دیا۔ ارے نا سمجھ یہ میری موت نہیں جو مجھے تم دیتے ہو بلکہ یہ میری اصل زندگی ہے، جو مجھے تم اپنی نادانی سے بخش رہے ہو۔ میری زندگی کا خاتمہ اصل زندگی کی حصول اور یافت ہے۔ میرے گوشت پوست و ہڈیوں کو میرے ہم خیال اور دوستوں سے جدا کرکے آپ مجھے وہ زندگی دیتے ہو، جو روزانہ تیرے دکھ درد اور غم رسانی کا سبب بنتا ہے۔ تیرے ہاتھوں سے دی ہوٸی موت، میری موت نہیں بلکہ لاتمام اور لازوال حیات ہے۔

تم نے یہی سوچا تھا اور سوچ رہے ہو کہ میں فلاں فلاں کو قتل کرونگا، تو بلوچ قوم اپنے مقصد سے ہٹ جاٸے گا؟ یہ تیری خام خیالی تھی، ہے اور رہیگی نواب نوروز اور اس کے ساتھیوں کو تم نے پھانسی دے کر اور نواب اکبر اور بالاچ کو شہید کرکے تم نے یہی سوچا اب بلوچ جھکے گی، بلوچ حق نہیں مانگے گا۔ ارے نادان نوروز، اکبر اور بالاچ مرے نہیں بلکہ زندہ ہیں، تمہاری دی ہوٸی موت نے انھیں زندگی بخشی ہے۔ وہ اپنے حقیقی روپ میں موجود ہیں اور میری قوم کو وہ راستہ دکھا رہے ہیں، جس پر وہ خود چل کر زندہ جاوید ہوۓ۔

جس طرح ڈاکٹر چے نے کہا تھا کہ “بزدل گولی چلاو، تم مجھے مار سکتے ہو مگر میری سوچ کو نہیں۔” ارے نادان تم اپنی نادانی اور خام خیالی سے میرے یقین کو محکم میرے نظریۓ کو پختہ اور میرے ایمان کو کامل بنا رہے ہو۔ تم میرے تحریک کو کمزور کرنے کے بجاۓ مستحکم اور مضبوط کر رہے ہو۔ تیری ظلم و نا انصافی اور بے دادی میری پختگی ہمت اور حو صلے کی عطاٸیگی کا سبب بنتا ہے۔ اگر لاش پھینکنا مسٸلے کا حل ہوتا، اگر ٹارچر اور اذیت رسانی مسٸلے کا حل ہوتا، اگر زندان اور عقوبت خانوں میں قید رکھنا مسٸلے کا حل ہوتا، اگر چادر و چار دیواری کی پامالی مسٸلے کا حل ہوتا، اگر عورتوں اور بچوں پر تشدد مسٸلے کا حل ہوتا، اگر یاسمین کو گولیوں سے چھلنی کرنا مسٸلے کا حل ہوتا، اگر توتک میں سینکڑوں لاشوں کو مسخ کرکے ایک جگہ دفنانا مسٸلے کا حل ہوتا، اگر آپریشن اور چھاپے مسٸلے کے حل ہوتے تو یہ مسٸلہ کافی عرصہ پہلے حل ہوچکا ہوتا ۔ ارے نادان اور بے علم دشمن تیرے یہ اعمال ِ فرعونی مسٸلے کو حل کرنے کے بجاۓ مسٸلے کو گہراٸی اور شدت بخش رہے ہیں ۔ اگر ان بے وقوفانہ ظالمانہ او وحشیانہ حرکات سے کوٸی قوم دوسرے قوم کو غلام رکھ سکتا تو اب بنگلہ دیش تیرا غلام، کیوبا امریکا کا اور الجزاٸر فرانس کا غلام ہوتا ۔ جھے تیری طاقت پر بھروسہ ہے، تجھے تیرے ہتھیاروں پر بھروسہ ہے۔ ارے کم علم یہ اسباب نہ مسٸلے کا حل ہیں اور نہ ہی رہے ہیں ۔ تم ان اسباب سے مجھے مار نہیں سکتے مجھے ختم نہیں کر سکتے، تم ان اسباب سے زیادہ دیر تک میرے وطن پر قابض نہیں رہ سکتے۔

جس طرح سقراط زہر پی کر زندہ رہے، جس طرح ادھم سنگھ تختہ ِ دار پر لٹک کر زندہ رہے، جس طرح حسین سر نیزے پر چڑھوا کر زندہ رہے اور دنیا کے مظلوموں اور محکوموں کے رہمناٸی ہمت اور حوصلے کا سبب بنے۔ میں بھی اسی طرح مر کر اپنے قوم کی راہشونی کا سبب بنوں گا۔ جس کی زندہ مثل دلجان، گزین، درویش اور طارق کریم جیسے نوجوان شہدا ہیں۔ تم نے انھیں جسمانی طور ہم سے ضرور جدا کیا، مگر حقیقت میں وہ زندہ ہیں۔ میرے دل، دماغ، فکر و خیال میں زندہ ہیں۔ تم تو یہی کہتے ہو کہ ہم نے انھیں قتل کردیا ۔ ارے کم بخت یہ ان کی زندگیوں کا اختتام نہیں بلکہ ان کے حیات کی شروعات ہے اسی طرح تم مجھے اٹھاوگے ٹارچر کروگے میرے گھر بار کو جلاوگے چادر و چار دیواری کی پامالی کروگے لاش پھینکوگے ہاں مگر مجھے اور میرے نظرٸے کو ختم نہیں کر سگوگے ۔ میرے فکر کو شکست نہیں دے سکوگے ۔ اور اس موت کے بعد میں اپنے دوستوں ہم خیالوں اور ہم سفروں کی کیسے کب کہاں اور کس طرح راہنماٸی اور راہشونی کرونگا تجھے کچھ خبر نہیں ۔ تم نا سمجھ لاعلم اور بے خبر ہو۔