گیارہ جون تجدید عہد کا دن – لطیف بلوچ

605

گیارہ جون تجدید عہد کا دن

تحریر: لطیف بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“مجھے اس بات پر ذرا پشیمانی نہیں اور نا ہی اس بات کا خیال ہے کہ مجھے مرنے سے زیادہ زندہ رہنا چاہیئے تھا۔ کیونکہ زندگی اگر بغیر مقصد کے ہو اور غلامی میں بسر کی جائے تو وہ لعنت ہے۔ میں نے بہت بڑے دشمن کو شکست دینے کی ٹھانی ہے میں اس میں ناکام نہیں ہوا ہوں۔ میرے جدوجہد کے ساتھی، عزیز اور میری قوم کے بچے میرے اس مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔” یہ الفاظ شہید حمید بلوچ کے ہے جو اُنہوں نے پھانسی سے قبل اپنے وصیت میں بلوچ نوجوانوں کے نام لکھا تھا۔

حمید بلوچ، بے مقصد اور غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دے کر تاریخ میں ہمشہ کے لیئے امر ہوگئے، اگر وہ چاہتا سر تسلیم خم کرکے مراعات اور مفادات حاصل کرسکتا تھا، لیکن اُنہوں نے موت کا انتخاب کیا۔ بلوچستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرکے تختہ دار پر چڑھ کر پھانسی کے پھندے کو چوم کر گلے میں ڈالا اور مظلوم قوموں کو یہ درس دیا کہ آزادی جیسے نعمت کے لئے پھانسی پر لٹکنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا، جب مقصد عظیم ہو اور منزل حسین ہو تو موت کا انتخاب کرنا کوئی گھاٹے کا سودا نہیں۔

حمید بلوچ بی ایس او کے سرگرم کارکن تھے، 37 سال قبل آج ہی کے دن ضیاء آمریت میں تخت دار کی زینت بن کر بلوچ قوم و دنیا کے تمام مظلوم قوموں کو یہ پیغام دیا کہ جو زندگی غلامی میں بسر کی جائے، وہ زندگی ایک عذاب اور لعنت ہے۔ اس لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے اور قوم کے گلے سے غلامی کے طوق کو نکال پھینکنے کے لئے پھانسی کا پھندا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ عظیم مقصد کے لئے انسان پھانسی سمیت ہر قسم کی اذیتیں برداشت کرتا ہے جس طرح شہید حمید بلوچ نے ظلم و استبداد کے خلاف حق کا علم بلند کرتے ہوئے اپنے مقصد کے لئے جان قربان کردیا۔ موت کو اپنے مقصد کے سامنے رکاوٹ بننے نہیں دیا، وہ اپنے زندگی اور اپنی بیٹی بانڑی سے زیادہ بلوچستان سے محبت کرتا تھا۔

حمید بلوچ کو 3 اگست 1979 میں گرفتار کیا گیا اُنہوں نے ایک سال چھ ماہ مچھ میں جیل کاٹی 11 جون 1981 میں حمید بلوچ کو پھانسی دی گئی، حمید بلوچ بچپن سے انقلابی تحریکوں کا مطالعہ کرنے کا شوق تھا اور وہ دنیا کے انقلابی تحریکوں سے متاثر تھے، بلوچ قوم کے غلامی، لاچاری، پسماندگی اور بزگی کو محسوس کرتے ہوئے اُنہوں نے سامراجی قبضہ گیر قوتوں کے خلاف لڑنے کا تہیہ کرلیا اور اپنے زندگی کو بلوچ قوم کی آزادی کے لئے وقف کردیا اور اُنہوں نے غلامی کے خلاف جدوجہد کرنے، بلوچ قوم کو سامراجی تسلط، جہالت، پسماندگی، بھوک و افلاس سے چھٹکارا دلانے کے لئے میدان عمل میں کود پڑا، قبضہ گیروں اور غاصبوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے بلوچ نوجوانوں کو متحد و منظم کیا۔

سلطنت آف عمان اور پاکستان نے عمان میں جاری ظفاری تحریک کو کچلنے و ختم کرنے کے لئے ایک معاہدہ طے کیا تھا معاہدے کے تحت بلوچ نوجوانوں کو عمانی فوج میں بھرتی کرکے ظفاری تحریک کے خلاف استعمال کرنا تھا لیکن شہید حمید بلوچ نے اس معاہدے کے خلاف بھر پور مزاحمت کیا، وہ سمجھتے تھے کہ بلوچ نوجوان اور بلوچ قوم خود مظلوم اور غلام ہیں، اُنھیں روزگار دلانے کا جھانسہ دے کر دوسرے مظلوم اور کچلے ہوئے اقوام کے خلاف استعمال کرنے کی سازش کیاُ جارہا ہے اور ظفاریوں کے تحریک کو کچلنے کے لئے غلامی کے چکی میں پسے ہوئے بلوچ نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جارہا ہے، جو ایک سامراجی بدمعاشی ہے جس کے خلاف اُنہوں نے مزاحمت کیا اور اس جرم کے پاداش میں گرفتار ہوئے اور پھانسی پر لٹکائے گئے لیکن حمید بلوچ نے اپنے اصولی موقف پر سودا بازی نہیں کیا آخر دم تک ڈٹے رہے اور پھانسی کے پھندے کو قبول کرکے تاریخ میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے۔

حمید بلوچ کا کاروان آج بھی تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے، نوجوان آج بھی حمید بلوچ کے فکر و فلسفہ اور تعلیمات پر عمل کرکے قبضہ گیر سامراجی قوتوں کے خلاف مزاحمت کررہے رہے ہیں اور آج بھی بلوچ نوجوان اپنے سروں کو کٹا رہے ہیں لیکن دشمن کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کررہے، چیئرمین زاہد بلوچ، سنگت ذاکر مجید بلوچ سمیت دیگر لاپتہ بلوچ فرزند شہید حمید بلوچ کے سنت پر عمل پیرا ہیں۔ زندانوں سے بلوچ نوجوانوں کے سربریدہ لاشیں برآمد ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے اصولوں پر سودابازی نہیں کرتے۔ موت کو ترجیح دے کر مادر وطن کے آغوش میں ہمشہ ہمشہ کے لئے سر رکھ کر سو جاتے ہیں، بلوچ فرزند حمید بلوچ کے قول پر مکمل عملدرآمد کررہے ہیں کہ جو زندگی غلامی میں بسر کی جائے وہ زندگی لعنت ہے، بلوچ آج غلامی کے خلاف برسر پیکار ہے اور ایک آزاد و خودمختیار بلوچستان کے قیام کے لیئے سیاسی و مسلح محاذوں پر مزاحمت کررہے ہیں۔

بلوچ نوجوانوں نے جب بھی اپنے قومی غلامی کا ادارک کیا ہے تو اُنھیں راہ سے ہٹانے کے لئے قبضہ گیروں نے ظلم و جبر کے مختلف طریقے استعمال کئے، تشدد، اذیتیں، جلاوطنی، جیل و زندان، مسخ شدہ لاشیں، عقوبت خانے اور پھانسیوں کے ذریعے اُنہیں اُن کے جدوجہد سے ہٹانے کی کوشیش کی ہیں لیکن ظلم و جبر، زندانوں و پھانسیوں سے نوجوانوں کو اُنکے عظیم مقصد سے دور نہیں رکھا جاسکتا۔ ہم شہداء کے تعلیمات اور اُنکے نقش قدم پر چلتے ہوئے غلامی اور جبر کے اندھیروں سے نکل سکتے ہیں اور شہید حمید بلوچ کے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتے ہیں۔