لاپتہ افراد کا سنگین مسئلہ – محراب بلوچ

286

لاپتہ افراد کا سنگین مسئلہ

محراب بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

آٹھ جون بلوچ مسنگ پرسنز ڈے کا اعلان گذشتہ سال 25 مئی کو بی ایس او آزاد نے کیا تھا، اس یوم کا مقصد لاپتہ افراد کے بارے میں بلوچستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لاپتہ افراد کے مسئلے کو دنیا میں آشکار کرنا تھا۔ اسی دن کے مناسبت سے مہم چلانے کے بی ایس او آزاد کے اعلان کی بلوچستان کے سب سے بڑے ادارے بی این ایم نے خیر مقدم کیا۔ بی ایس او آزاد کا اعلان بلوچ تاریخ کا اب ایک حصہ بن گیا ہے۔ گذشتہ سال کی طرح اس سال، اور آئندہ ہر سال اسی دن کے مناسبت سے اندرونی و بیرونی مختلف ملکوں میں لاپتہ افراد مسئلے کے بارے میں آگاہی مہم چلاتے ہیں ـ

سال کے بارہ مہینے بلوچ قوم کیلئے درد سے خالی نہیں لیکن جون کے مہینے ہمیشہ ایک تلخ یاد سونپ کر چلاجاتا ہے،آٹھ جون 2009 کو بی ایس او آزاد کے مرکزی وائس چیئرمین ذاکر مجید کو پاکستانی سیکورٹی فورسز نے مستونگ پڑنگ آباد سے آٹھا کر غائب کردیا۔ آج نو سال گذر جانے کے باوجود ذاکر جان کا اتا پتہ نہیں، پاکستانی ٹارچر سیلوں میں اذیت سہہ رہا ہے۔ اسی فہرست میں ایک اور یاد جون کا مہینہ ذہن میں چھوڑتا ہے، گوکہ اُن یادوں سے دل شکستہ ہے لیکن وقت کی رفتار نہ ہی ہمارے کہنے سے تیز چلتی ہے اور نہ ہی کم بس جون کے مہینے ہر سال اپنے بدنما چہرے کو دیکھا کر چلا جاتا ہے۔

29 جون 2009 کو بی این ایم کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر ڈاکٹر دین جان کو پاکستانی فورسز کے خفیہ اداروں کے کارندوں نے ذاکر جان کی طرح خضدار کے تحصیل اورناچ سے اٹھا کر آج تک پاکستانی اذیت گاہوں میں بند رکھا ہوا ہےـ

ذاکر جان کی بہن بانک فرزانہ اپنے بھائی کے بازیابی کیلئے ڈاکٹر دین جان کی دونوں بیٹیاں سمّی و مہلب اپنے ابو کی بازیابی کی خاطر بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیرمین ماما قدیر کے ساتھ پیادہ 2500 کلو میٹر مسافت طے کی 27 اکتوبر 2013 کوئٹہ سے نکل کر 25 دن کے بعد 22نومبر کو کراچی پہنچے، یہاں احتجاجی کیمپ لگاکر 22دسمبر اسلام آباد کی طرف راونہ ہوئے 49 دن کے بعد 9 فروری راولپنڈی پہنچ کر وہاں احتجاجی کیمپ لگادیا۔ بلوچستان کے ہائی کورٹ سے لیکر اسلام آباد کے سپریم کورٹ تک ہر در تک اپنی آہ و زار اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ درج کیا لیکن کچھ نہیں ہوا، سوائے مایوس کن احساس کے انبار کےـ 18 مارچ 2014 کو بی ایس او آزاد کے مرکزی چیرمین زاہد کُرد کو کوئٹہ سیٹلائیٹ ٹاؤن پاکستانی سیکورٹی فورسز و خفیہ ادروں کے کارندوں نے اٹھا کر غائب کردیا، بی ایس او آزاد کے سینٹرل کمیٹی کے ممبر لطیف جوھر نے 46 دن کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی کیمپ میں گذار دیئے، کچھ نہیں ہوا سوائے مایوسی کے، آج تک بی ایس او کے چیئرمین لاپتہ ہیں۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے ماما قدیر نو سال سے مسلسل بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھا ہوا ہے، کوئٹہ و کراچی کے پریس کلب میں لیکن آج تک لاپتہ افراد کے بازیابی عمل میں نہیں آیا۔ بجائے بازیاب ہونے کے یہ مسئلہ روز بہ روز یہ معاملہ سنگین تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔ لاپتہ افراد کی شرح میں اضافہ ہوتا چلارہا ہے۔

بلوچ مسنگ پرسنز ادارے کے مطابق روزِ اول سے اب تک چالیس ہزار سے زائد ب لاپتہ بلوچوں کے کیسز سامنے آچکے ہیں۔ اسی طرح15 نومبر2017 پاکستان کے بڑے شہر سندھ کراچی گلشن اقبال ٹاؤن موسیمات سے ایک گھر پر چھاپہ مارکر بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکریٹری جنرل ثنااللہ بلوچ، سی سی ممبر حسام بلوچ اور نصیر احمد بلوچ نیشنل مومنٹ کے سینئر ممبر رفیق بلوچ کو اُٹھا کر تاحال لاپتہ ہیں۔

28 اکتوبر کو بی ایچ آر او کے مرکزی انفارمیشن سیکرٹری نواز عطا کے ساتھ کراچی گلستان جوھر میں نو افراد کو اُٹھا کر غائب کردیا گیا، جن میں پندرہ سترہ سال سے لیکر کمسن و چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ اسی طرح کراچی یونیورسٹی کے اندر نوجوان صغیر احمد کو رینجرز و خفیہ ادروں کے کارندوں نے20 نومبر کو اُٹھا کر غائب کردیا۔ اسی ہفتے بی این ایم کے سابقہ مرکزی انفارمیشن سیکرٹری قاضی ریحان کے بھائی قاضی محمد جان کلمتی کو کراچی ملیر سے خفیہ اداروں کے کارندوں نے اُٹھا کرغائب کردیا۔

بہت سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلے میں مارنے پھینکنے کا عمل بھی تیزی سے جاری ہے، اسی سال میں کراچی لیاری علی محمد محلے سے پانچ بلوچ نوجوان کے لاشوں کو جعلی مقابلے میں قتل کرکے پھینک دیا ـ ریاستی فورسز و خفیہ ادارے اسی پالیسی پر 2015 سے عمل پیرا رہے ہیں، بلوچستان کے بہت سے علاقے مشکے، جھاؤ آواران، تربت ،مند گوادر، پسنی مختلف علاقوں میں یہ عمل رونما ہوا ہےـ

بلوچ نواجوں سے لیکر بزرگوں تک، بچوں سے لیکر عورتوں تک طالب علموں سے لیکر دانشوروں تک ہر شعبہِ جات کے افراد زندانوں میں پابندِ سلاسل ہیں۔ پاکستانی فورسز کے ہاں اذیتیں سہہ رہے ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ یہ سنگین مسئلے روز بہ روز مضبوط ہوکر جڑ پکڑ رہے ہیں ـ

اب ہماری قومی و انسانی فرض بنتا ہے کہ اس سنگین مسئلے کے خلاف یکمشت ہوکر آواز اُٹھائیں، اس
مسئلے کو دنیا کے سامنے آشکار کریں، یہ قومی فرض اُجاگر کرنا ہماری فرضِ اولین ہے۔ اقوام متحدہ، عالمی اداوں کو اپیل کریں، تاکہ اس سنگین معاملے کے بارے میں نوٹس لے۔