مصنوعیت اور معصومیت – برزکوہی

299

مصنوعیت اور معصومیت

برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

آج سوشل میڈیا پر ایک لائیو وڈیو پر نظر پڑی، وہ وڈیو وفاق پرست پارٹی بی این پی کے سرکردہ رہنما سابقہ پاکستانی سینیٹر ثناء بلوچ کا تھا جو بلوچ نوجوانوں کے نام ایک پیغام دے رہا تھا۔ بہرحال وڈیو میں وہی پرانے ٹوپی ڈرامے، بھڑک بازی، ووٹ کی بھیک مانگنے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا لیکن مجھے بلوچ نوجوانوں کے نام اس وڈیو میں صرف اس چیز سے حیرت، نفرت اور پریشانی کا احساس ہوا کہ آیا ابھی تک اس اکیسویں صدی کے دور میں بھی بلوچ نوجوان اتنے ہی بے وقوف سادہ اور احمق ہیں کہ ثناء بلوچ ایک وڈیو پیغام کے ذریعے انہیں مزید بے وقوف بنا سکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ثناء خود بے وقوف اور احمق ہے؟ ابھی کون فیصلہ کریگا کہ کون احمق کون بے وقوف؟ کوئی نہیں جانتا کیوں نہیں جانتا؟ پتہ نہیں۔

کیا بلوچ قومی تحریک براہے؟ آزادی کی تحریک جو قربانیوں اور مشکلات سے دوچار اپنے مقدس منزل کی طرف رواں دواں ہے۔ کیا مجموعی حوالے سے ہمارے پوری بلوچ قومی تحریک میں پاکستانی پارلیمانی، ثناء بلوچ جیسے مصنوعیت اور معصومیت والے اثرات اور رویےموجود نہیں ہیں؟ اگر ہیں تو پھر بلوچ نوجوان ابھی تک بے وقوف ہیں یا پھر بلوچ قیادت بے وقوف ہے؟ کوئی نہیں جانتا ہے، کیوں نہیں جانتا پتہ نہیں؟ کیوں پتہ نہیں؟ یہاں سے ہمارے علم و شعور اور ادراک کی آزمائش شروع ہوتی ہے۔ جب تک اس آزمائش سے گذر کر اس امتحان کو ہم پاس نہیں کرسکتے ہیں، اس وقت تک ہم تحریک آذادی کے نام پر اسی طرح ڈرامہ بازیوں، مصنوعیت اور معصومیت کا شکار ہوکر اندھا دھند بھروسہ کرکے جذباتیت و جنوں کی بنیادوں پرعقیدے اور خدابناتے رہینگے، جو حقیقت میں خدا کجا انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہوتے ہیں۔

باقی دنیا کے علاوہ خاص کر پاکستان میں مفاد پرستی اقتدار اور حکمرانی کی سیاست میں ہمیشہ مصنوعیت اور معصومیت دکھا کر ڈرامہ بازی، دھوکا دہی، فریب اور جھوٹ کی بنیاد پر کارکنوں اور کچھ لوگوں کو کچھ مراعات دینا یعنی ایک روپے میں ایک پیسے سے بھی کم دینا۔ زیادہ تر لوگوں کو صرف بے وقوف اور گمراہ کرنا اور خود خاندان سمیت سیاست کے نام پر خوب کاروبار کرنا، پوری عیش و عشرت کی زندگی گذارنا، اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر کرنا، پھر قیادت بھی خوش، کارکن بھی خوش، کچھ مخصوص لوگ بھی خوش اور یہ سلسلہ چلتا رہے گا، کوئی مایوس کوئی پریشان کوئی بدظن کوئی ناراض نہیں ہوگا۔ کیونکہ نہ خون نہ پسینہ نہ قربانی نہ درپدری نہ مشکلات صرف اور صرف اوپر سے نیچے تک صرف مصنوعیت معصومیت اور ڈرامہ بازی سے سب کچھ حاصل ہوگا۔ کوئی بھی جتنا بھی بڑا ماہر مصنوعیت و معصومیت کا ڈرامہ باز ہوگا، اتنا ہی کامیاب ہوگا یہ ہے مفادات مراعات اقتدار اور حکمرانی کی سیاست کا اصل بنیاد اور فلسفہ۔

کیا 70 سالہ پاکستانی پارلیمانی منفی روایتی سیاست یا اس سے من وعن مطابقت اور یکسانیت رکھنے والی بلوچ فرسودہ قبائلی سماج کےاثرات، بلوچ قومی تحریک آزادی پر مرتب نہیں یا موجود نہیں ہیں؟ اگر مرتب ہوچکے اور موجود ہیں تو یہ طرز سیاست طرزعمل اور رویوں سے قومی تحریک کامیابی حاصل کرسکتا ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ دنیا میں جتنے بھی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوچکے ہیں وہ بنیادی طور پر سب سے پہلے مصنوعیت ، معصومیت، ڈرامہ بازی، دھوکے اور فریب والی پالیسوں سے مکمل پاک حقائق اور سچائی کی بنیاد پر قائم ہوچکے ہیں۔ نہ کہ ثناء بلوچ والی جھوٹ، ڈرامہ، مصنوعیت اور معصومیت والی طرز سیاست رویوں سے تحریک کامیاب ہوگی۔ نہ کہ یہ رویے تحریکی رویے ہوسکتے ہیں، کیونکہ تحریک میں موقع پرستوں کے علاوہ باقی تمام مخلص کارکنوں سے لیکر، لوگ مراعات و مفاد کیلئے نہیں بلکہ خون و پسینہ بہاکر مشکل مصیبت اور تکلیف سہہ کر ہمیشہ خطرات میں جہدوجہد کرتے ہیں۔ تو وہ ایسے پارلیمانی طرز سیاست، کاروباری طرز سیاست، عیش و عشرت طرز سیاست، جھوٹ، منافقت، دھوکا دہی، مصنوعیت اور معصومیت کو کبھی برداشت نہیں کرینگے۔ ردعمل کیا ہوگا؟ پھر کمزور فکر، کم علم، بےحس و بے احساس لوگ اور موقع پرست لوگ ملکر آزادی کی جہد میں بھی ذاتی زندگی، ذاتی مفاد حاصل کرنے کی چکروں میں ڈوب کر اسی طرز کو خوب اختیار کرتے ہیں یعنی ایک روپے میں ایک پیسے سے کم ملا تو وہ بھی صحیح۔

تو یہ فارمولہ یا پالیسی خود آزادی کی مقدس تحریکوں میں شہداء کے خون کےساتھ غیر واضح طور پر مکمل دغابازی اور سودا بازی ہے۔ غیر واضح اس لیئے کچھ تو سرعام شہداء کے خون کا سودا کررہے ہیں، جس طرح بی این پی اور نیشل پارٹی کچھ غیر واضح انداز میں دونوں میں کوئی فرق نہیں، عمل ایک ہی ہے، شکل طریقہ کار ضرور مختلف ہوگا، دونوں قوم شہداء اور سرذمین کے نام پر کمائیں گے۔

دوسری طرف ایسے طرز سیاست رویوں سے خاص کر مخلص، باعلم، باشعور، کارکن اور لوگ ہمیشہ بجائے ایسے چیزوں کو اپنانے اور اختیار کرنے کے تحریک سے مایوس، بدظن ہوکر مکمل ٹوٹ جاتے ہیں۔

آزادی کی تحریک میں مصنوعیت اور معصومیت جیسے طرز رویے کی کوئی ضرورت نہیں، بجائے بلوچ نوجوانوں کو مزید ڈرامہ، سرسبز باغ دکھانے، چھوٹے چھوٹے چیزوں میں خوش رکھنے کے سچائی اور حقائق کے بنیاد پر ان کی ذہنی و سیاسی تربیت کرکے سب کچھ عملاً کرنا، اس وقت تحریک کی سب سے اہم ضرورت ہے۔