شہید صباء دشتیاری – بیبرگ بلوچ

303

شہید صباء دشتیاری

بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

“ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا”

بلوچ دھرتی کی اگر بات کی جائے، تو کہتے ہیں کہ یہ دھرتی بہت مردم خیز ہے۔ اس نے بڑے بڑے نامور شخصیات کو جنم دیا ہے،اگر یہ دھرتی مردم خیز ہے، تو ساتھ ساتھ مردم کُش بھی ہے. کیونکہ بہت سے لوگوں کو ہم نے اپنے طعنوں،سنگ زنی ،بے جا مخالفت اور رویوں کی وجہ سے مارا بھی ہے۔ عطاء شاد کی شکل میں، یا ڈاکٹر رسول بخش رئیسانی یا شہید صباء دشتیاری اور یہاں تک کہ تنقید کے نام پر ہم نے نواب خیر بخش مری کو بھی نہیں بخشا۔

جب صباء دشتیاری زندہ تھے، تو وہ لوگ جو اپنے آپ کو استاد،پروفیسر،ڈاکٹر،دانشور کہتے ہوئے تھکتے نہ تھے، وہ بھی محفلوں اور مجلسوں میں صباء کی بہادری، دلیری پر سنگ زنی کرتے تھے۔ یہاں تک کہتے تھے کہ صباء جیسے ادبی اور قابل آدمی نے غلط راستہ اختیار کرتے ہوئے، فتنہ و فسادی نظریات پھیلانے کی کوشش کررہا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے جان کو خطرہ ہے اور جب اس احساس اور قومی جہد کار کو انسانیت دشمن سامراجی ایجنٹوں نے گولیوں کا نشانہ بنایا تو آج وہی لوگ صباء کی دلیری،بہادری اور قربانیوں کے گن گاتے ہیں۔
“ساری زندگی جہنوں نے پتھر برسائے
آج وہی کہتے ہیں بے گناہ تھا وہ”

موجودہ بلوچ قومی تحریک نہ صرف سامراج دشمن ہے بلکہ ترقی پسند اور انسانی حقوق کا علمبردار بھی ہے، قبضہ گیر پاکستان کے خلاف بلوچوں کے جتنے بھی تحریکیں چلی ہیں، ان میں یہ اپنی نوعیت کے حساب سے واحد تحریک ہےجس میں مزدور ،کسان،طالب علم ،ٹیچر،پروفیسر، سردار نواب خاص کر عورتوں کی بڑی تعداد غلامی کی نفرت لیئے ہوئے جدوجہد میں بر سرپیکار ہیں۔

موجودہ تحریک میں نواب خیر بخش مری ،شہید غلام محمد اور پروفیسر صباء دشتیاری نے ایندھن کا کردار ادا کیا۔ جب بھی قومی تحریک کی لگی ہوئی آگ کمزور ہوئی، تو ان لوگوں نے قومی شعور کو اجاگر کرنے کے لیئے اپنے سرکلز اور عوامی اجتماعات کے ذریعے اسے مضبوط بنانے کی جدوجہد کو تیز کیا، ان کے اس آتش بیانی اور انقلابی پیام نے جہاں بلوچ قوم میں ایک نئی روح پھونکی، وہیں پاکستانی استعمار اور اس کے گماشتوں کی راتوں کی نیند حرام کردی۔

صباء دشتیاری چلتن پہاڑ کی طرح دشمن کے سامنے ڈٹے رہے، پہاڑ بھی آتش فشانوں سے پھٹ کر ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں، لیکن صباء دشمن کی دھونس دھمکیوں اور اپنوں کی بزدلانہ مشوروں کے باوجود نہ جھکے اور نہ بکے. ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد بلوچ قومی تحریک میں سیاسی شعور پیدا کرنا تھا اور بلوچستان کے قومی خود ارادیت اور ریاستی انتہا پسندی کو اپنا علمی موضوع بنانا تھا. انہوں نے بلوچ طالب علموں میں علم کی طلب اور فکر و نظریہ کی سیرابی میں بنیادی کردار ادا کیا. اپنی علم اور بہادری کو اپنا ہتھیار بنا کر مضبوط اور مستحکم علمی، ادبی اور سماجی شعور کے ساتھ ساتھ بلوچ آزاد وطن کیلئے تگ و دو کرکے جسمانی حوالے سے علیحدہ ہو کر ہمیشہ کیلئے زندہ ہو گئے۔

صباء دشتیاری کی شہادت نے بلوچستان اور بلوچوں کو ایک ایسے فرد سے محروم کر دیا، جو مرد میدان مجاہد بھی تھا اور مفکر و دانشور بھی۔ آج بھی اہل بلوچستان ان کے شہادت پر نوحہ کناں ہیں. ان بے لوث خدمات اور قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہم یوسف عزیز مگسی کے اس پیغام کو لے کر صباء کے کردار و افکار پر عمل پیرا ہوں۔
.
“اگر اسلاف کا خون آپ میں موجزن ہے تو اٹھیئے، جس طرح آپ کے اسلاف اٹھا کرتے تھے، سیاسی غلامی کی زنجیروں کو ایک نعرہ حریت لگا کر توڑ ڈالئے اور قوموں کیلئے مشعل راہ بن جایئے. باہمی حسد و رقابت اور ان لغویات کی بیخ کنی کیجیئے اور صرف آتش رقابت سے اپنے سینوں کو مشعل کیجیئے کہ جنگ آزادی میں تم سے زیادہ کوئی بہادر نہ نکلے اور تم سے پہلے کوئی جام شہادت نوش نہ کرے. خدا کیلئے بزدلانہ اور رجعت پسندانہ ذہنیت کو مٹایئے اور دیکھیئے تاریخ کیا کہتی ہے، مادر وطن کی قربانیوں سے سبق حاصل کیجئے۔”