قوم پرست پارلیمانی اورغیر پارلیمانی سیاست – نادر بلوچ

252

قوم پرست پارلیمانی اورغیر پارلیمانی سیاست

تحریر : نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ آرٹیکل

سنہ دو ہزار میں جب بلوچ جہد آزادی کی تسلسل شروع ہوئی تو بلوچ سیاسی طبقوں میں بحث چھڑ گئی، جہاں پارلیمانی اور غیر پارلیمانی جہد کے طریقہ کار موضوع بحث رہتی تھی۔ آزادی کے واضح موقف کے ساتھ سامنے آنے والے طلباء تنظیمیں اور سیاسی پارٹیوں نے پاکستانی پارلیمانی نظام کو مسترد کرکے غیر پارلیمانی جہد کا اعلان کیا۔ آزادی پسند پاکستانی پارلیمنٹ کو بلوچ قومی غلامی کو طول دینے کا حربہ اور پارلیمانی بنیاد پر بلوچ قوم کی تقسیم کا ذمہ دار قرار دیکر واضع موقف کے ساتھ بلوچ قوم کو سیاسی بنیادوں پر جہد آزادی میں شامل کرنے کی حکمت عملی ترتیب دینے پر زور دیتے تھے۔ پاکستانی پارلیمانی سیاست کا حشر بلوچ قوم، قومپرستوں کی حکومتوں کی برخاستی اور پھر گورنر راج کو دیکھ چکی تھی۔ جوبلوچستان میں بلوچ قوم کے لیئے کچھ نہیں کر سکے۔ جس سے قوم پرست سیاستدانوں کو کرپشن اور دیگر الزامات کے ذریعے بدنامی کے داغ کے ساتھ برخاست کرنا۔ ایسی مثالیں تھیں جو آزادی پسندوں کی موقف کو مظبوط کرتی تھیں۔ بلوچ قوم پارلیمانی نظام سے مایوس ہوچکی تھی۔ اس موقف کو پذیرائی ملی کہ آزادی کی جہد کرنی ہے، تو پارلیمانی نظام سیاست سے چٹھکارہ ضروری ہے۔

پارلیمانی سیاسی جماعتیں، پچیس سال انڈر گراونڈ رہنے والی آزادی پسند سوچ کی سرفیس پر نمودار ہونے کے لیے تیار نہ تھیں۔ جسکی بنیادی وجہ پارلیمانی سیاست میں مشغول رہنا تھا کہ مقصد کیلئے کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ بلوچ قوم کی تاریخی آزادی سے کوئی انکاری نہیں تھا لیکن پست حوصلوں کی وجہ سے ماحول اور حالات کو تحریک شروع کرنے کیلئے سازگارنہیں سمجھا جارہاتھا۔ نہ آنے والے وقت یعنی ماحول کو سازگار بنانے کیلئے پارلیمانی سیاست دانوں کے پاس کوئی پروگرام تھا۔ دوسری جانب ریاست نے پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی جماعتوں کے اتنے حصوں میں تقسیم کی تھی کہ بلوچ قوم پرست جماعتیں بلوچستان میں اکثریت حاصل نہ کرسکیں۔ اس تقسیم کی وجہ پاکستانی پالیسیاں تھیں، جنہوں نے بلوچ نواجوانوں کی ایک پورے نسل کو کرپٹ بنا کر کینسر زدہ کردیا تھا۔ اسی وجہ سے آج ریاست کو جب،جہاں جیسے ہے کی بنیاد پر سیاستدان ملتے ہیں۔ جو بلوچ قومی سوچ کو یکسر نظرانداز کر کے ریاستی پالیسوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے پارٹیاں بناتے بھی ہیں، توڑتے بھی ہیں۔

دوسری وجہ پاکستان کی وفاقی جماعتیں، بلوچستان میں تعینات ریاستی خفیہ اداروں کے زریعے بھی بلوچ پارلیمان پرست جماعتوں کو قدم جمانے نہیں دیتی تاکہ بلوچستان پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ اپنی من چاہی حکومت کرے۔ جسکی حالیہ مثالیں ایک پارلیمانی مدت میں تین وزرا اعلیٰ تبدیل کرنا ہے۔

جماعتیں اورپارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے پارلیمانی سیاست کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ حق خوداردیت کے مطالبے کو اپنا کر سیاسی جہد کے ذریعے بلوچ قومی مفادات کے تحفظ کا فیصلہ کیا، تاکہ ریاستی قہر و غضب سے اپنے کارکنوں اور لیڈر شپ کو محفوظ رکھ سکیں، گو کہ یہ فیصلہ بعد میں غلط ثابت ہوا، نہ ہی وہ سیاسی کارکنوں کو ریاستی ظلم و جبر سے بچا سکے اور نہ ہی آزادی پسند سیاسی جماعتوں سے دور رکھ سکے بلکہ کارکن وقت و حالات کی نزاکت کے مطابق تحریک آزادی کی جہد میں شامل ہوتے رہے۔

غیر پالیمانی سیاسی تنظیمیں جہد شروع کرکے ریاست کی سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئیں اور آزادی کے پیغام کو بلوچ گھر و گدان تک پہنچاتی رہیں۔ ریاست کے عتاب کا شکار ہوئے، ہزاروں سیاسی کارکنوں اور رہنماوں کی قربانیوں کے ساتھ میدان عمل میں آج تک ڈٹی ہوئی ہیں۔ جبکہ پارلیمانی پارٹیاں صوبائی خود مختیاری اور حق خودارادیت کے نعرہ کے ساتھ پاکستانی آئین کے تحت پارلیمانی نظام کا حصہ رہیں۔ بلوچ قومی تحریک جب کامیابی کے ساتھ دنیا کے تقشے پر نمودار ہونے لگی تو خوف زدہ ریاست نے ان پارلیمانی جماعتوں کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ قوم دوستی اور قوم پرستی کے ناطے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ جو جماعتیں تحریک آزادی میں براہ راست شامل نہیں ہوسکیں تھیں، وہ کسی نہ کسی طرح قومی جہد میں مشغول سیاسی تنظیموں کی کمک و مدد کرتے نہ کہ ریاستی قبضہ گیر پالیسوں کا حصہ بنتیں۔ کچھ پارٹیوں کی جانب سے براہ راست بلوچ دشمنی کی اقدامات بھی دیکھنے کو ملیں، بعض پر ریاستی سربراہی میں ڈیتھ اسکوڈ اور مخبری جیسے الزامات بھی لگ چکی ہیں۔

آج اگرغیر پارلیمانی سیاسی جماعتوں اور انکی بیس سالہ پالیسوں کا جائزہ لیں، تو ریاستی ظلم و جبر کے شکار آزادی کی واضح موقف کے ساتھ آج بھی جہد جاری ہے۔ بلکہ وقت و حالات نے انکے تجربات میں اضافہ کرکے آزادی کی جہد مزید مستحکم کی ہے۔غیر پارلیمانی جماعتوں نے دنیا کو پاکستانی پارلیمانی نظام کا وہ استحصالی چہرہ، جو گذشتہ کئی دہائیوں سے ایک منظم پالیسی کے تحت بلوچ قومی تشخص،مفادات کو نقصان دیتی رہی ہے۔ سن ۲۰۱۳ کے انتخابات میں بلوچ قوم کی جانب سے پارلیمانی جہد کے حوالے سے شدید ردعمل آیا، جس میں ٹرن آوٹ ۳٪ رہی۔ مقبوضہ بلوچستان پاکستان کے کل رقبے کے برابر حدود اربہ کے مالک ہونے کے باوجود وفاقی اسمبلی میں ۱۱ نشستیں دی گئی ہیں، تو بلوچ ایسے پارلیمانی نظام میں وقتی طور پر بھی اپنے قومی مفادات کی حفاظت کیسے کر پائے گا؟

آج پارلیمانی جماعتیں اپنے سیاسی پالیسیوں اور نعروں سے بھی پیچھے جاچکی ہیں۔ جسکے سبب بلوچ قوم کا اعتماد کھو چکا ہے۔ یہ اس مقام پر بھی نہیں رک پائیں گے، جہاں پر آزادی پسند ان سے اختلاف رکھتے ہیں۔ وسیع تر صوبائی خود مختاری، ساحل و وسائل کی دفاع، جیسے بنیادی حقوق بھی پاکستان سے حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ جسکی وجہ انکی ناکام لیڈر شپ جو پاکستانی دباو کو برداشت نہیں کر پاتی ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے بلوچستان کی پارلیمنٹ میں ہوتے ہوئے بلوچ ساحل و وسائل تک کو چائینا کو بیچ دی گئی۔ ایک قراردار کے بعد دوسری قرار داد چین اور پاکستان اس کٹھ پتلی پارلیمان سے پاس کرواتی رہی اور ڈالر کی ریل پیل میں بلوچ قوم کی بنیادی حقوق جیسے مسائل بھی انکی نظر سے اوجھل ہوگئیں۔ اس سے حکومت یا اپوزیشن میں شامل کوئی بھی مبراء نہیں کیوںکہ ان قراردادوں کے پاس ہوتے ہوئے کسی پارلیمانی رکن نے بلوچ وطن کے بکنے اور تماشہ کرنے کے وقت خود کو اس پارلیمان میں آگ نہیں لگایا، جس میں اسکی دھرتی ماں، مادر وطن کی بولی لگ رہی تھِی۔ آزادی پسند ان قراردادوں کی یلغاراور اثرات کے خلاف پاکستانی اور چینی جارحیت کو روکنے کیلیے خون کی ندیاں بہاتی رہی۔

آج بھی وقت ہے کہ پارلیمانی جماعتیں اور سیاسی کارکن اپنی پالسیوں کا از سر نو جائزہ لیں۔ قوم سے سچ نہیں بول سکتے تو جھوٹ بھی نہ بولیں۔ جہد میں ساتھ نہیں دے سکتے تو پاکستان کی پالسیوں میں شامل نہ ہوں۔ ضمیر ہے تو اسکو مردہ نہ ہونے دیں۔ جو جماعتیں بلوچ قوم دشمنی میں آگے نکل چکی ہیں، واپس آکر بلوچ قوم سے رابطہ کریں اور بلوچ قومی دائرہ میں شامل ہوں۔ بلوچ دشمنی سے بہتر ہے سیاست نہ کریں لیکن اپنی قومی جہد کاروں کے خلاف کھڑے نہ ہوں۔ ایک بھائی اگر گھر سے باہر ہے تو دوسرا بھائی گھر نہیں لوٹتا بلکہ گھر کی حفاظت کرتا ہے۔
نوٹ: یہ آرٹیکل بلوچ قومی سوچ وقومی یکجہتی کے فکر کے تحت لکھی گئی ہے، کسی سیاسی کارکن، یا گروہ کے دل آزاری کا مقصد نہیں بلکہ سوچنے کیلئے کہ ہم کیا کررہے ہیں اور ہماری قومی ذمہ داریاں اور کردار کیا ہیں۔