درد آشنا، دوا سے غافل
تحریر: عبدالواجد بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم
“بتان رنگ و خوں توڑ کر ملت میں گم ہوجا”
بلوچ قومی تحریک کے تناور درخت کو آج جس شدت سے دشمن اپنی نت نئی پالیسیوں اور حربوں سے کاٹنے کی کوشش کررہا ہے، شاید بلوچ کی70 سالہ طویل دورانیہ جدوجہد میں اس کی مثال ملتی ہو، کیونکہ اس مرتبہ ریاست اپنی کامیابی اور پنجاب کی بالادستی برقرار رکھنے کے لیئے چائینہ کے ساتھ مل کر ایک ایسی اشتراکی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہے، جس سے خطے میں چائینہ و پاکستان کی بالادستی قائم ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ آج وقت جس طرح ہر گذرتے لمحے بلوچ قوم کو یکجاہ و قومی قوت بننے کا تقاضا کررہی ہے، اس سے پہلے شاید ہمیں اس امر کی اتنی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ دنیا کی بدلتی صورت حال روز روز کی سیاسی و جغرافیائی تبدیلیاں قوموں کی موت و زیست کے فیصلوں پر جاکر دم لے رہی ہیں۔ اگر ہماری سیاسی قیادت اس جانب سوچنے یا غور کرنے سمیت نئی راہیں تلاش کرنے میں ناکام رہی تو یہ یقینی بات ہوگی کہ بلوچ اس خطے میں ایک نایاب شے کی حیثیت میں باقی رہ جایگا۔
بلوچ قومی سیاست کی منتشر قوت، ایک دوسرے سے دوریاں، سیاسی اختلافات اور طریقہ کار پر اختلافات کو لیکر جس نادانی سے اپنے آپ کو ایک دوسرے کا حریف بناڈالا شاید اس کا ہمیں احساس نہیں لیکن دوسری جانب دشمن نے ہماری ان کمزوریوں کوتاہیوں سے فائدہ اٹھاکر ہمارے سیاسی معاملات کو اتنا پیچیدہ بنادیا کہ جن کو حل کرنے میں ہر کوئی ہچکچا رہا ہے جو کہ اک غیر سیاسی عمل سمیت شعوری حوالے سے بالکل صفر ہونے کے زمرے میں آتا ہے. قومی تحاریک خواہ وہ کسی بھی بنیاد پر ہوں، اگر ہم ان تحاریک کے تاریخی حیثیت سمیت تمام سیاسی پہلوؤں پر نگاہ ڈال کر دیکھیں تو ایسی پیچیدگیاں چپقلشیں دوریاں پائی گئیں ہیں لیکن ان تحاریک کو Lead کرنے والے عناصر کے پاس قومی بقاء و مجموعی تشخص کو لیکر فیصلے کرنے اور اپنے عوام کی اہمیت کو مدنظر رکھکر اپنے منتشر قوتوں کو ایک نقطے پر یکجاء کرنے کی صلاحتیں تھیں، جو کہ یقیناً بلوچ قومی سیاست کے ہاں ناپید دکھائی دے رہا ہے، لیکن اس تیز رفتار دنیا کے ساتھ ہم قدم ہونے اور دشمن کے ہر اس عمل کو روکنے سمیت بلوچ قومی سیاست کی موجودہ لہر کو سمیٹ کر ایک ایسی لڑی میں باندھنا، وقت کی اہم ضرورت بن چکی ہے۔
سیاسی کارکن کی حیثیت سے ہمیں ہر اس عمل کا ادراک ہونا چاہیئے، جس سے ہماری قومی تشخص، قومی بقاء و مجموعی یکجہتی پر کاری ضربیں لگ رہی ہیں۔ آج ہمیں اس بات کا شدت سے احساس ہونا چاہیئے کہ پاک چائینا اکنامک کوریڈور اگر کامیاب ہوا، تو بلوچ کی تباہی پر مہر ثبت ہوگی، اسی لیئے تو آج دشمن ہر اُس ضمیر فروش بلوچ کو یکجاہ کرنے کی تگ و دو میں ہے، جو بظاہر قوم پرستی کا دعوے دار ہے۔
نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، بی این پی عوامی اور نومولود پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی سمیت ہر اُس قوت کو بشمول اُن عناصر کو جنہوں نے مقدس قومی سوچ سے منحرف ہوکر ریاست کا کلمہ پڑھا، ان کو یکجاہ کرکے کسی بھی طرح بلوچ قومی تحریکِ آزادی کو کاؤنٹر کرنے سمیت اکنامک کوریڈور کو کامیاب بنانے کے لیئے نت نئے سازشوں کا جال بن رہا ہے.
اس بات سے ہم قطعاً انکار نہیں کرسکتے کہ ہماری کوتاہیوں و کمزوریوں سمیت خود پرستی، انا، پسند و نا پسند و خود غرضانہ رویوں کی حالیہ روش سے ریاست نے اتنی جلدی قوی فائدہ اٹھاکر اپنے جرثوموں کو ہمارے اندر ایسے پیوست کیا، جن کو نکالنا اب مشکل ہوچکا ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ وہ اس طرح کہ بلوچ قومی قیادت کو اُس تیسری آنکھ کی ضرورت ہے، جو قومی تحریک کو حالیہ بحران سے نکال کر ایک مضبوط اتحاد کی جانب گامزن کرے. اس حوالے جس طرح گذشتہ کوتاہیوں کمزوریوں کی وجہ سے پیچیدگیوں کا معرض وجود میں آنا اور اُن کی خاتمے کے لیئے قومی یکجہتی حوالے گذشتہ کئی دنوں سے ایک نئی بحث چڑ چکی ہے، جو اس امر کا غمازی کرتا ہے کہ بلوچ قومی قیادت سمیت ہر اس سیاسی کارکن بشمول عسکری جہدکاروں کے اس بات کا گہرائی سے ادراک ہے کہ ہم سے غلطیاں سرزد ہوئی ہیں، جن کا ازالہ کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے(گوکہ مسلح سطح پر جہدکاروں نزدیکیاں حالیہ چند مثال ہیں)لیکن اب ہمیں اس جانب غور کرنا ہوگا اور اُن رویوں سے نکلنا ہوگا، جن سے یہ مزاج پنپ چکی ہے کہ فلاں ابتدا کرے، فلاں بنیاد رکھے، نہیں بلکہ سب سے پہلے بلوچ قومی سیاست کے درخت کے ہر اس بکھرتے شاخ کو پھر سے جڑنا ہوگا، جو چند سیاسی اختلافات و طریقہ کار کی وجہ سے جدا ہوئے تھے۔
نیک نیتی کے ساتھ ہر اُس عمل کا ابتدا کرنا ہوگا، جس سے اُن بکھرے شاخوں کو اکھٹا کیا جاسکتا ہے، اس ضمن میں یہ لازمی ہوگا کہ ہمیں انا، خود پرستی، پسند و ناپسند جیسے مہلک امراض سے نکلنا ہوگا کیونکہ انہی امراض کی وجہ سے ہمیں بہت سا نقصان پہنچا ہے اور اسی روش کی وجہ سے ہم نے ہزاروں جانیں گنوائیں ہیں.
عرض کرنے کا مقصد یہی ہے ان بنیادی سیاسی نقاط پر بحث کیا جائے، جس سے نئی راہیں تلاشی جاسکتی ہیں، طلباء قیادت کی منتشر قوت کو یکجا ہونا ہوگا، بلوچ طلباء کی مضبوط قوت ہی باقی ماندہ سیاسی فکر کو پروان چڑھا سکتی ہے۔ اس حوالے ہمیں بہ حیثیت سیاسی کارکن کے اس بات کا احساس ہونا چاہیئے کہ گروہیت سے نکل کر ہمیں بلوچ قومی قوت کو یکجا کرنا چاہیئے. کیونکہ جب منتشر اور بکھری شاخیں اکھٹی کی جائیں گی، تو مجموعی قومی اتحاد کو بنانے میں آسانی ہوگی. انا، گروہیت پسند و نا پسند کی سیاست کو دور بھگانا ہوگا کیونکہ بلوچ فرزندان کی قربانیاں، بلوچ قومی تحریک کے اندر کلیدی ہیں. اسی لئے ہمیں قومی تحریک کے روشن مستقبل کے لیئے، نیک نیتی سے اپنے فرائض انجام دینے ہونگے۔
یہاں یہ ضروری ہوگا کہ تمام مخلص سیاسی کارکنان اس جانب سوچیں کہ سیاسی حوالے سے ہمیں وہ بند راہیں کھولنی ہونگی، جس سے ہم سیاسی کارکنان ایک دوسرے سے ہم نشست ہو سکیں، ایک دوسرے کو سننا ہوگا کیونکہ سیاست کی ڈکشنری میں تلخیوں اور دوریوں کو باہم مل بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے۔ مجموعی قومی اتحاد کو وجود میں لانے سے پہلے ہمیں ان بکھرتی شاخوں کو اکھٹا کرنا ہوگا، جن سے تناور مضبوط درختیں ہچکولے کھارہی ہیں. قومی سوچ کو اجاگر کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ ہم انا و خود غرضی سے نکل جائیں، اگر بلوچ قومی سیاست میں پارٹیوں سمیت اکیلے شخص کی بھی تھوڑا سا کردار ہو تو اس کو بھی یکجا ہونے کی تلقین کرنا، ہر کسی کا فرض ہے۔ اس سوچ سے نکلنا ہوگا کہ آپ ایک فرد ہو، فلاں کی کوئی حیثیت نہیں، یہ تاثر پھیلانا قومی مجموعی سوچ کے لیئے زہر قاتل ہوگا کیونکہ یہ قومی تحریک ہے، تو اس میں ہر فرد کا اپنا اپنا کردار ہوتا ہے، بس اب ضرورت اس چیز کی ہے کہ اگر ہمیں درد کا احساس ہے، تو اسی لیئے مل کر ہمیں اس درد کا دوا کرنا ہوگا۔