انفرادی حواس اور تحریک – برزکوہی بلوچ

340

انفرادی حواس اور تحریک

برزکوہی بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : اردو کالم

ہر کوئی جانتا ہوگا کہ حواس کے معنی عقل و ہوش اور حسیات کے ہیں، اس حوالے سے ہم دو اہم مغربی فلسفیوں کا رائے لیتے ہیں۔ ولیم جیمس اور جرمنی کے ونٹ، ان کا نظریہ یہ تھا کہ انسان کے سب ہی اعمال اس کے حواس سے تحریک پاتے ہیں، چنانچہ اس طرح کی فکر کو حسیاتی سائنس مانا گیا، یاد رکھیں ولیم جیمس دنیا کے پہلے مفکر ہیں، جنہوں نے نفسیات کو فلسفے سے الگ کرکے، اسے ایک آزاد شعبے کی شکل دی۔ اور ونٹ دنیا کے پہلے مفکر ہیں، جنہوں نے نفسیات کا تجربہ گاہ قائم کرکے تجرباتی نفسیات کی ابتداء کی اور مغربی دنیا میں ولیم جیمس کو جدید نفسیات کا بابا آدم تسلیم کیا جاتا ہے اور خاصکر ان کی کتاب پرنسپل اف سائیکولوجی جدید نفسیات کی پہلی کتاب تسلیم کی جاتی ہے۔

مجھے بذات خود، ہر چیز میں کیڑا نکالنے والے رویے سے انتہائی نفرت ہے یعنی خوامخواہ تنقید کرنے والے، اپنے آپ کو ماہر نقاد ثابت کرنے کی کوشش کرنا اور ایسے رویے بھی پسند نہیں کہ ہر تحریکی کمزوری کو بار بار دہرانے اور ان کا ازلہ اور تدارک کرنے کے بجائے بس راہ فراریت اختیار کرکے صرف اتنا کہنا کہ تحریکوں میں ایسا ہوتا ہے یا بس اللہ خیر کریگا کم سے کم ذاتی حوالے سے ایسے رویوں کو میرا زہن ایک فیصد بھی قبول نہیں کرتا۔

اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، پہلا سوال اگر واقعی ہمارا سب ہی اعمال بقول ولیم جیمس اور ونٹ کے ہمارے حواس سے تعلق رکھتے ہیں، تو پھر ہمارے اعمال تحریکی اعمال سے مماثلت رکھتے ہیں یا نہیں؟ تحریکی اعمال سے مراد وقت و حالات کے مطابق تحریکی تقاضات و ضروریات۔ اگر جواب ہاں میں ہے، تو پھر ہر ایک کے مختلف حواس کو لیکر ہم کیسے اور کس طرح تحریکی تقاضات اور لوازمات کو پورا کرسکتے ہیں؟ اگر تحریکیں ہر ایک کے حواس کے مطابق چلنا شروع کردیں، تو اس تحریک کا حال کیسا ہوگا؟ وہ ہر باشعور شخص بہتر اندازہ کرسکتا ہے۔ تو پھر اگر ہر ایک کے حواس کے مطابق تحریک کو نہیں چلائیں، تو پھر تحریکوں میں ہر ایک کی رائے مشورے اور فیصلے کا احترام کہاں چلا جائیگا؟

خاص کر ایک روایتی طرز بات ہمیشہ ہر ایک زبان پر موجود ہوتا ہے کہ تحریکیں عوامی خواہشات و مزاج کے مطابق چلتے ہیں یعنی پوری عوام میں سے ہر ایک کی حواس کے مطابق تحریک کو چلانا چاہیئے تو پھر کیا نتیجہ حاصل ہوگا؟

یعنی میرا اپنا حواس ہے، پہلے یہ سوچناجس کی پرورش اور تشکیل کہاں سے ہوا ہے،علم، عمل، تجربہ، ماحول، وسیع مطالعہ، تحقیق و ریسرچ، غور و فکر یا پھر صرف سنی سنائی روایتی باتوں سے پھر میں کیسے، کس طرح رائے، مشورے اور فیصلے کرنے کا اہل ہوتا ہوں؟ اگر مجھے اہل نہ سمجھا جائے تو میری رائے کا احترام خود بخود پھر فوت ہوگا۔ تو پھر میں مایوس ہونگا یا خوامخواہ تنقید برائے تنقید والا رویہ اپناوں گا۔ بجائے تنقید برائے تنقید اور مایوس ہونے سے ایسا بہتر نہیں ہوگا کہ سب سے پہلے ایمانداری سے غور کرنا ہوگا کہ میرا اپنا حواس کس حد تک اصل اور بنیادی تحریکی لوازمات سے واقفیت رکھتاہے۔ اگر میں ایسا سمجھتا ہوں، میں واقفیت رکھتا ہوں، تو ہرایک ایسا سمجھتا ہے، پھر ہر ایک کو ماننا ہوگا، جب ہر ایک کی مانی جائے، تو تحریک کا کیا حال ہوگا، دوسرے لفظوں میں اسے پریشر پولٹکس کہا جائے گا، جو دنیا میں سب سے ناکام پولیٹکس ہے۔

اس حوالے سے تحریک کی قیادت سے لیکر تمام کارکنوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ میں کس حد تک تحریکی تقاضات سے واقف اور حالات کا ادراک رکھتا ہوں، پھر جاکر اپنی رائے اور نقطہ نظر پر ڈٹے رہیں، اس کیلئے وسیع تحقیق، علم و عمل اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔