ایکو چیمبر اور قومی تحریک – نادر بلوچ

247

ایکو چیمبر اور قومی تحریک

تحریر: نادر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

ایکو چیمبر انگریزی زبان کا ایک اصطلاح ہے۔ جسے محدود اور صرف اپنے خیالات پرانحصار کے لیئے استعمال کیا جاتا ہے۔ دنیا میں جتنی ترقی ہو رہی ہے، یہ انسانی خیالات میں مسلسل تبدیلی اور بہتری کی جانب بڑھرہی ہے۔ جس سماج میں خیالات یا آیڈیاز کا تبادلہ خیال ہوتا ہے، وہ سماج اتنی ہی زیادہ ترقی کرتی ہے۔ سماج کو اگر ہم دنیا کی کل آبادی کے تناظر و رو سے تقسیم کرکے دیکھیں تو ہمیں مختلف سماج نظر آتے ہیں، ہر سماج کی خصوصیات اور ترقی میں فرق نظر آتی ہے۔ جسکی وجہ سے ایک سماج دوسرے سماج سے منفرد ہوتی ہے۔ یورپ کا اگر موازنہ ہم دیگر سماجوں سے کریں، تو وہ ہمیں زیادہ پرکشش معلوم ہوگی، بہ نسبت دیگر سماجوں سے حالانکہ دنیا میں ان سے زیادہ قدیم اور پرانی انسانی بستیاں ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی ہزاروں سالہ تاریخ ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک افغانستان ہے، اسکی تاریخ اور خود بلوچ قوم کے پاس دنیا کی قدیم ثقافت اور روایات ہیں۔ تو پھر یورپ دیگر سماجوں سے زیادہ ترقی یافتہ اور منفرد کیوں ہے؟ جب ہم اپنے سماج اور انکے سماجی رویوں کو دیکھتے ہیں، تو ان میں سب سے زیادہ پرکشش خصوصیت جزبیت کا عنصر پاتے ہیں۔ یورپ کے مفکرین اور دانشوروں کی زندگیوں کا جائزہ لیں، تو انہوں نے دنیا میں جہاں جہاں سفر کیا، جس سماج میں گئے اسکا مشاہدہ کیا اور اسکی خصوصیات اور سماجی رویوں کو اپنے سماج کا حصہ بنایا۔ مختلف خیالات کو قبول کیا، مختلف آراء کے لوگوں کے ساتھ رہنا سیکھا۔

ایکو چیمبر سماج پر مبنی ایک تحقیقی نفسیات ہے، جس میں انسان اپنے آیڈیاز یا خیالات کو ہی درست مانتا ہے اور دوسروں کے خیالات سے متفق نہیں ہوتا۔ ایسا ہونے کی وجہ سے وہ یا تو تنہائی کا شکار ہوجاتا ہے یا پھر وہ ان لوگوں کی تلاش کرتا ہے، جو اسکے خیالات سے متفق ہوں۔ وہ مختلف آراء کو قبول نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے خیالات کو دوسروں سے بانٹتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کا خیال اچھا ہو اور دوسروں سے انکی رائے مانگنے سے وہ خیال اور بھی بہترین ہوسکتا ہو، لیکن خیال کے ایک ایسے کمرہ میں پھنسا ہوتا ہے، جس سے وہ نکل نہیں پاتا، اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ یہ نہیں جانتا کہ اس کی وجہ سے وہ لوگوں اور کامیابی سے دور ہوتا جاتا ہے۔ جب ہم خود کو تنہاء کر دیتے ہیں یا صرف ان لوگوں میں بیٹھتے ہیں جو ہمارے آیڈیاز کو مانتے ہیں، تب ہم لوگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے بھی تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کامیابی اور ناکامی کے بیچ جھولتے رہتے ہیں۔ ہم اپنے شرائط پر دوستی کرتے ہیں اور وہ اختلاف رائے رکھنے والوں کو اپنے سرکل سے نکال باہر کرتے ہیں، جسکی وجہ سے ہمارے اچھے خیالات بھی ہمارے ہو کر ہی رہ جاتے ہیں۔ اس رویے کا اثر اس حد تک ہوتا ہے کہ ہم کھانے پینے، رہن سہن میں بھی انہی لوگوں سے ناطہ رکھتے ہیں جنکو ہماری پسند ، پسند ہو۔

اگر ہم ایکو چیمبر کا اپنی قومی نفسیات ،سیاسی تنظیموں یا تحریک کے حوالے سے مشاہدہ کریں، تو اسکا عمل دخل بڑے پیمانہ پر نظر آتا ہے۔ جہاں ہم افراد سے نکل کر تنظیموں اور پارٹیوں کے سطح پر دیکھیں، تو ہم جانے انجانے میں ایکو چیمبر میں پھنسے ہیں۔ اس سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ تحریک آزادی میں شامل ایسا تنظیم نہیں، جو اتحاد ویکجہتی کی اہمیت اور افادیت سے انکار کرے۔ بلکہ اسکے لیئے مسلسل کوشش بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی ایک خیالی ترتیب پر چلتے ہیں اور مختلف خیالات پر اختلات رکھتے ہیں۔ اسوقت اتحاد و یکجہتی کو لیکر مختلف آراء سننے کو ملتے ہیں۔ جیسے کہ پہلے ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجوہات تلاش کی جائیں، دو نقاطی ایجنڈے کے علاوہ کسی صورت میں اتحاد پر بات نہیں ہوگی۔ اتحاد تو کریں گے مگر اسکے لیئے ہمارے شرائط ہیں۔ اتحاد کے لیئے کوشش کر رہا ہوں، میری شرط ہے، نہ شرائط ہیں۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب ہم سب کی بلکہ بلوچ قوم کی خواہش ہے کہ تحریک میں اتحاد ہونا چاہیئے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اتحاد ہو نہیں پا رہی؟

ان سب پر اگر ہم اپنے پورے سماج اور قومی نفسیات کا جائزہ لیں تو ایکو چیمبر ہماری نفسیات کا وہ حصہ ہے، جس سے آج بلوچ قوم نفسیاتی سطح پر نبرد آزماء ہے۔ ہم فرد سے افراد، گھر سے گاوں، شہر سے ضلع تک بلکہ کارکن سے لیڈر تک، تنظیموں سے لیکرتحریک تک ایک ایسی سوچ کی گرفت میں ہیں، جو ہمیں سوچ اور زاویوں سے آشنا ہونے کے لیئے دنیا کی دوسری ترقی یافتہ اقوام میں شامل ہونے سے روک رہی ہے۔ کیوںکہ جب تک ہم ایک دوسرے سے دور رہیں گے اور اپنے ہی خیال کو کامیابی کا محورسمجھیں گے، تب تک ہم قریب نہیں ہوں گے۔

سب تنظیمیں بلوچ قوم اور قومی تحریک کے خیر خواہ تنظیمیں ہیں، سب نے مثبت سوچ کے ساتھ اپنے خیال کو ہی بلوچ قوم کا ذریعہ نجات جانا ہے۔ لیکن اچھے خیال کو اور نکھارا جاسکتا ہے۔ اچھائی اور مثبت تبدیلیوں کی گنجاہش کو شرائط میں بند نہیں کرنا چاہئے اگر ایسا کرتے ہیں، توہم اس ایکو چہمبر کا شکار بنتے ہیں جو ہمیں دوسرے خیالات تک پہنچنے نہیں دے رہی۔ جب سب ساتھ ہونگے تو ہی نیا خیال جنم لے گا، جو کامیابی کی نوید ہوگا، اسکے لیئے ہمیں اس ایکو چیمبر سےنکلنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہوگا۔ تب ہی قوم کے وابسطہ امیدوں کو پورا کیا جاسکتا ہے۔

بلوچ دانشور،سیاسی و سماجی کارکن اور سماج سے تعلق رکھنے والا بلوچ سماج کا ہر بیٹا، بیٹی، مرد عورت، اپنی ذات کا محاسبہ کریں کہ ہم خود اس نفسیات سے کیسے نکلیں، اپنے گھر اور گاوں کو کیسے نکالیں، اپنے سیاسی تنظیموں کو کیسے سوچیں اور خیالات کی نئی دنیا سے متعارف کروائیں۔ اس قومی نفسیات کو ختم کر کے خود کو، اپنی قوم اور قومی تحریک کو دنیا کی دیگر سماجوں کے برابر لانے کے لیئے ہمیں اپنے سرکل سے نکل کر دوسرے سرکلوں میں بِیٹھنا ہوگا۔ اپنے سماجی اورسیاسی رویوں میں تبدیلی لاکر قومی تحریک میں متحرک مختلف آراء رکھنے والی تنظیموں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے خیالات پیش کرنا ہوگا، یہی ترقی اور اتحاد کا راستہ ہے، اس پر ہم سبکو چلنا ہوگا۔