گھڑی سازی کا فلسفہ
تحریر: نادر بلوچ
ہر چیز میں افراتفری اور باقاعدگی سے متعلق تلاش۔
آپ آسمان اور کائنات کو دیکھتے ہیں اور آپ کو اس کا ہونا غیر معمولی لگتا ہے اور سب کچھ صرف اپنی جگہ پر ہے. اس کا ہونا غیر معمولی ہے اور سب چیزیں ہر جگہ ہیں،.لیکن سب کچھ صحیح جگہ پر ہیں. میں ایک ایسی گھڑی تلاش کرتا ہوں، جو مجھے پسند ہے۔ کچھ میں مارکیٹ میں پرانی زنگ آلود تلاش کرتا ہوں، میں اسے پونڈ یا کچھ پیسوں میں خریدتا ہوں۔ مجھے اس میں سے سب غیر ضروری گند صاف کرنا پڑتا ہے اور اگر اسے دوبارہ بحال کرنے کا انتظام ہوتا ہے تو یہ وہی بنتا ہے، جس کے لیئے یہ بنا تھا۔ جو وقت کو برقرار رکھتا ہے.اگر آپ سوچتے ہیں کہ، لوگ واقعی گھڑی کی طرح ہیں۔ تم کھانا کھاتے ہو، یہ توانائی ہے اورآپ کا ایک دل ہے جو ٹک ٹک کرتا ہےاور پھر آپ کے پاس ہاتھ ہیں، گھڑی کے پاس بھی ہاتھ ہیں، زنگ آلودہ کو صاف کرنا ہے. آپ کوواقعی بہت محتاط ہونا ہے، یہ ایک چھوٹا سا نازک اسپرنگ ہے۔ یہ ٹوٹ بھی سکتا ہے اور اگر یہ ٹوٹ جاتا ہے… یہ بہتر ہے کہ نہ ٹوٹے۔
کسی دن، جب میرا مزاج اچھا نہیں ہوتا اور جب میں کسی بھی سرنگ کے اختتام میں کوئی روشنی نہیں دیکھتا یا میں اس کے آخر میں کسی بھی روشنی کو دیکھنے کے لیئے سرنگ نہیں دیکھتا۔ میں اپنے آپ کو یہاں آنے اور اسے کرنے کے لیئے مجبور کرتا ہوں۔ جب میں یہ کام شروع کرتا ہوں تو یہ بہت اچھا ہے، پھر ہر چیز دوبارہ معمول پر آجاتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ آپ چیزیں کیسے کریں، آپ کس طرح چائے پیتے ہیں، آپ کیسے ہیں، میں آپ سےمتعلق ہر چیز کو نہیں جانتا۔ تم کس طرح بیٹھتے ہو، تم کیسے سوتے ہو،کھاتے ہو، کھاؤ جو کھاؤ، کتنا کھاؤ۔ سب کچھ آرٹ ہے، سب کچھ دستکاری ہے.آپ سب کچھ کرتے ہیں. یہاں تک کہ اگر آپ صرف گلی میں کھڑے ہوتے ہیں، یہ بھی دستکاری ہے، کیونکہ آپ دیکھ رہے ہیں، آپ سن رہے ہیں. تم چکھ رہے ہو آپ کو معلوم ہے اور آپ کے ارد گرد اپنے اثرات کو جانے بغیر آپ کا اثر ہے. یہ خود کار طریقے سے ہوتا ہے.آپ جانتے ہیں، آپ اس میں مدد نہیں کر رہے ہیں.یہ خود بخود ہوتا ہے. اگر آپ کچھ کام کرتے ہیں تو یہ آپ کی زندگی بن جاتی ہے، جو بھی آپ اپنا وقت خرچ کرتے ہو، یہی سب آپ کے پاس ہے۔
بالا سطور ایرانی نژاد برطانوی شہری فرحرز کے ہیں۔ جو ایک گھڑی ساز ہے۔ جیسا کہ فرحرزاحتیاط سے لکڑی کو پالش کرتے ہیں،دھات اوردھاتوں کی جگہوں کو شکل دیتے ہیں،انکا ذاتی فلسفہ سامنے آتا ہے- جوکہ لمحہ بہ لمحہ کے تجربات کے منتر کو سمجھتا ہےاورہرچیز میں اسے دستکاری نظر آتی ہے۔
فلسفہ ایک ایسا موضوع ہے جس پرہر کسی کا اپنا نقطہ نظراور خیال بنتا ہے۔ فلسفے کی تاریخ پرانی ہے۔ انسانی زندگی میں شامل ہر علم اور مضمون کا حصہ ہے۔ سیاسیات ایک آرٹ ہے، ایک طریقہ ہے جسکے اپنے قانون و اصول ہیں، انکو سمجھنے کے لیئے فلسفے کی ضرورت پڑتی ہے، کیونکہ ان دونوں کا تعلق سماجی علوم سے ہے۔ یہاں پر اس بالا عنوان کی روشنی میں اگر ہم اپنی سیاسی نظام اور اسکے مروجہ طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشیش کریں، تو وقت کی قدر،ایکٹوزم ،سیاسی عمل ، تنظیم کاری، سوچ و فکر،ڈسپلن، کردار سازی، ہنر مندی، طریقہ کار، سیاسی رویہ، تربیتی عمل، انفرادی کردار، اجتماعی کردار، چناو،اور آخر میں ان سب سرگرمیوں کو زندگی سے جوڑنا۔ جب تک عمل ہے، یہی زندگی ہے اور وقت ہے جو آپکے پاس ہے۔
اس میں شامل طریقہ کار کو جاننے میں مدد گار ہوگی۔ سماج میں تبدیلیوں کی شروعات کیسی ہوتی ہے۔ اس آرٹ اور دستکاری کو قانون کائنات سے سمجھنا کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے۔ جہاں اسکی ضرورت ہے۔ قانون اور طریقہ کار کو سمجھے بغیر ہر طرف افراتفری نظر آتی ہے۔ جب اس بنیادی اصول کو سمجھیں گے کہ فرد اپنی صلاحیت کے مطابق اپنی جگہ پر ہو۔ چناو کا عمل شروع کرنا ہے۔ اس میں آپکو سماج سے چناو کرنی ہے۔ آپکو ہر ضروری صلاحیت ملے گی، مگر شائد اس حالت میں نہ ملے، جسکی ضرورت ہو لیکن آپکو یہ معلوم ہو کہ ضروت کسی کی اور کہاں ہے؟ کس لیئے ہے؟ چناو کے عمل کے بعد اس صلاحیت کو نکھارنے کا عمل نازک ہے، اس میں اتنا ماہر ہونا ہے کہ کوشیش رائیگاں نہ جائے۔ اب جب چناو کے بعد صلاحیت کو کیسے نکھارا جائے۔ اتنی ہی زمہ داری کے ساتھ کردار سازی،اس احتیاط سے کریں کہ اس عمل میں ٹوٹ پھوٹ نہ ہو۔ اس کو وہاں پر کام پر لگانا، جہاں اسکی ضرورت اور اصل جگہ ہے۔
تحریک کی یا تنظیم کی مثال بھی ایک گھڑی کی سی ہے۔ جس میں افراتفری بھی ہے اور اگر بنیادی اصول سے آشنائی ہے تو اس میں ٹہراو بھی ہے سکون بھی ہے کہ ہر چیز اپنی جگہ پر ہے۔ اگر چیزیں اپںی جگہ پر ہوں تو تحریک ڈسپلن میں ہو گی۔ گھڑی کا ایک پرزہ بھی نہ ہو تو وہ ٹھیک سے کام نہیں کرے گا۔ ایسا مقام بھی آتا ہے کہ ہر طرف اندھیرا اور افراتفری ، نظر آئیگی۔ یہ مایوسی کا وہ مقام ہو گا جہاں ٹوٹنے کا اندیشہ ہوگا۔ اسکے بنیاد مختلف ہو سکتے ہیں یا آپ اپنی ٹھیک جگہ پر نہیں جہاں آپکی صلاحیت نہیں اور کام نہیں کر پا رہے، یا پھر اپکو احساس نہیں ہو پا رہا کہ جہاں آُپ ہو وہی آپکی اصل جگہ ہے کئیوں کیلئے تحریک ایک نظام ہے جس کے قل کا آپ حصہ ہیں۔ نظام کا معلوم ہو کہ ہر کسی کو اپنی جگہ پر کام کرنا ہے۔ مایوسی سے نکلنے کے لیئے خود کو کام میں مشغول کرنا چاہیئے کیوں کہ عمل ہی تحریک کا حصہ بناتی ہے، اگر عمل نہیں تو افراتفری نظر آئے گی اور عمل سے امید اور حوصلہ ملتی ہے۔ خود کو اندھیروں سے نکالنے کے لیئے کائنات کے نظام کی طرح یا گھڑی کی کانٹے کی طرح چلتے رہنا ہے۔ وقت اس موقع کو فراہم کرتی ہے کہ چلتے رہیں۔ چلتے رہنا ہی زندگی ہے اور زندگی تحریک میں ہے۔