قضیہ ستائیس مارچ: روگردانی یا راہ فراریت؟ – حکیم واڈیلہ

312

قضیہ ستائیس مارچ: روگردانی یا راہ فراریت؟

حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ : کالم

‏‎” یہ جنگ، آزادی کی جنگ ہے،یہ جنگ بلوچ قوم نے خود شروع کی ہے، یہ جنگ مادرِوطن بلوچستان کی آزادی کے ساتھ ہی ختم ہوگی ، کیونکہ بلوچستان ایک آزاد ملک تھا ، اسکی آزاد حیثیت تھی بلوچ قوم ایک آزاد قوم تھا، 27مارچ 1948ء کو پاکستانی ریاست نے بین الاقومی سرحدوں کو پامال کرتے ہوئے، بلوچستان پر جبراً قبضہ کیا، جسے الحاق کا نام دیا گیا، شروع دن سے بلوچ قوم نے اس جبری الحاق کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے۔”
‏‎
مندرجہ بالا الفاظ شہید قائد واجہ غلام محمد بلوچ کے کراچی لیاری کے خالق جمعہ حال میں تاریخی خطاب سے اقتباس ہیں اور تاریخی سچائی بھی یہی ہے۔ اگر اس تاریخی سچائی سے کوئی صرفِ نظر کرے یا انکار کرے تو پھر وہ کسی بھی طرح بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا حصہ نہیں بن سکتا، کیونکہ بلوچ قومی آزادی کی تحریک اسی بنیاد پر استوار ہے اور بلوچ قومی سوال اسی حوالے کی متقاضی ہے۔ بنیادی اہمیت کے حامل اس بیانیئے و مذکورہ عنصر کی وجہ سے متعدد بار بلوچ قومی مزاحمت جاری و ساری رہی 1948ء 1958ء تا 1960ء 1962ء تا 1969ء 1973ء تا 1977ء اور موجودہ جاری تحریک جو اب 19 ویں سال میں داخل ہوچکی ہے، جو گذشتہ تمام تحاریک سے زیادہ وسیع ہونے کے علاوہ بین الاقومی اہمیت بھی اختیار کرچکی ہے اور جانی و مالی قربانیاں بھی سب سے زیادہ دے چکی ہے۔

اس پوری صورتحال کے باوجود ہمارے محترم رہنما کا یہ بیان کے صرف قلات نے الحاق کیا تھا اور بلوچستان کے باقی ریاستوں اور قبائل نے رضاکارانہ طور پر پاکستان میں شمولیت اختیار کی تھی، قصّہ ختم کے مصداق ہے۔ محترم رہنما سے ہم یہ بھی پوچھنے کی جسارت نہیں کرسکتے کہ پھر ہزاروں جانوں کی قربانیاں، ہزاروں بلوچ فرزندوں کی جبری گمشدگیاں ہمارے عظیم رہنماؤں کی جانی قربانیاں، کیا سب نورا کشتی تھے؟ یا پھر بلوچ قوم کو اپنی زندگی پیاری نہیں کہ وہ ہر وقت قابض ریاست سے اسلحہ بدست برسریپکار ہے؟ کیا بلوچ قوم کو مرنے کا شوق ہے؟ کیا بلوچ قوم غنڈہ یا داداگیر ہے جو ہر پل لڑتا جھگڑتا ہے؟ یا اسے کوئ اور کام آتا ہی نہیں ؟ ایسی صورتحال جو گذشتہ 70 سالوں سے بلوچستان میں پیش آرہا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کا سامنا سندھ ، پختونخواں حتیٰ کہ پنجاب کو کیوں درپیش نہیں؟ حتیٰ کہ مظلوم سندھی قوم بھی بھیانک غلامی سے دوچار ہیں، سندھی قوم نے صرف 1983ء میں عملی طور پر بھرپور جنگ لڑی لیکن بلوچ قوم کی طرح تسلسل کے ساتھ نہیں۔
‏‎
آج بین الاقومی طور پر پاکستانی ریاست یک تنہا ہے اور اندرونی طور پر ایک خطرناک داخلی بحران کا شکار ہے۔ اس قسم کے بحران کا سامنا اس ریاست اور اس کے حکمرانوں کو کبھی پیش نہیں آیا۔ امریکہ، یورپ کے علاوہ سعودی عرب اور دوسرے عرب ممالک نے بھی اپنی راہیں جداکردی ہیں۔ چین جسے پاکستانی نام نہاد دانشور قابلِ اعتماد دوست سمجھتے ہیں تذبذب کا شکار ہیں اور پاکستانی حکمرانوں کو واضح کرچکی ہے کہ وہ اب اپنے جاری منصوبوں کو تکمیل تک نہیں پہنچا سکتا کیونکہ ان منصوبوں کےلیئے ذمینی حقائق ساز گار نہیں اور پاکستانی ریاست کے پاس سوائے کرپشن کے کوئی واضح لائحہ عمل نہیں ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں پاکستانی حکمرانوں اور خاص کر فوج نے طفیلی بن کر usa کے مفادات کی جنگوں میں ملوث ہوکر سوویت یونین کے خلاف ایک قلعے اور محاذ کی حیثیت اختیار کی، مذہبی جنونیت کو پروان چھڑایا، جسکے نتیجے میں فوجی جرنیل اور ان کے خاندان کھرب پتی بن گئے۔

ان جرنیلوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاکر اپنے خطرناک عزائم کےلیئےراستہ ہموار کیا اور ساری دنیا میں اپنے پراکسی جہادی قوتوں کو پھیلایا ۔ مگر اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے اور usa یورپ وغیرہ کے مفادات تبدیل ہوگئے ہیں اور دنیا میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں، اس صورتحال میں اب پاکستانی ریاست عالمی پالیسیوں سے مربوط نہیں رہے۔ usa اور دوسری یورپی طاقتیں واضح طور پر حقانی نیٹ ورک، جرنیلوں کے ایٹمی ذخائر اور فوج کی بڑی تعداد کو ماننے پر تیار نہیں۔ مگر پاکستانی فوج کے کھرب پتی جنرل کسی بھی طرح پیچھے ہٹنے سے انکاری ہیں۔ اسلیئے usa اور دوسری عالمی قوتوں نے بھرپور تیاری کے ساتھ یہ فیصلہ کررکھا ہے کہ اس دہشت پسند ریاست کی اب کوئی ضرورت نہیں ہے۔
‏‎
مگر ستم دیکھیں ہمارے رہنماء اس اہم ترین موڑ پر بجائے usa اور یورپ کے اتحادی بننے کے اُلٹا ان جرنیلوں اور پاکستان کا اتحادی بننے جارہے ہیں۔ قدرت اور حالات نے بلوچ قومی امنگوں اور آرزؤں کی تکمیل کا ایک شاندار و نادر موقع فراہم کیا ہے۔ مگر صد افسوس کے ہمارے ان رہنماؤں کے ناتواں کندھے اس عظیم قومی ذمہ داری کو سہار نہیں پارہےہیں یا پھر شاہد ہمارے رہنماء پاکستان کو باور کرانا چاہتے کہ وہ اس زبردست موقع کا ہم فائدہ نہیں اٹھانا چاہ رہے ہیں، بلکہ اس نازک صورتحال میں وہ پاکستان کیساتھ کھڑے رہنا چاہتے ہیں۔ یہ رہنماء، سمجھ رہے ہیں کہ اس احسانِ عظیم کے بدلے میں پاکستانی حکمران انہیں طلائ تمغوں سے نوازینگے، انہیں نوبل پرائز کا حق دار تسلیم کرینگے اور پاکستان کا اقتدار اعلیٰ بلاچوں و چرا ان کی قدموں میں نچھاور کرینگے۔ پاکستانی جرنیل ان کے آگے سر تسلیم خم کرینگے اور انھیں اپنا آقا و سردار مان جائینگے۔
‏‎
بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے کافی عرصے سے اندازہ لگایا تھا کہ ان رہنماؤں اور پاکستانی اتھارٹیز کے درمیان اندر ہی اندر بات چیت جاری ہے اور کافی معاملات طے پاچکے ہیں۔ ان رہنماؤں نے اس سب کو انتہائی خفیہ رکھا اور اپنے چند جی حضوروں کے علاوہ کسی کو بھی بتانے کی ضرورت گوارا نہیں کیا۔ حالانکہ ہمارے یہ قائدین اپنی پارٹیوں اور تنظیموں کو بھی بائی پاس کرگئے جو پارٹی ڈسپلین اور آئین کی صریحاً اور دانستہ خلاف ورزی تھی (عجب تماشہ ہےکہ پارٹی ڈسپلن اور آئین کی خلاف ورزی کےالزامات ہم پر لگائے جارہے ہیں ),کافی کچھ معلوم ہونے کے باوجود ہم نے قومی آزادی کی عظیم تحریک کی خاطر ان چیزوں کو میڈیا میں ڈسکس نہیں کیا۔ تاکہ مایوسی نہ پھیل جائے، چونکہ بلوچ سرفیس سیاست کو قابض ریاست نے انتہائ ظالمانہ انداز میں کچلا ہوا ہے، جسکی وجہ سے سرفیس کے کارکن جلاوطن ہوئے اور روپوش ہوگئے۔ سرفیس کی عدم موجودگی میں اب ترب کا پتہ ان رہنماؤں کے ہاتھ میں تھا، لیکن ہماری امیدوں کا مرکز ہمیشہ ہمارے عظیم سرمچار رہے۔

ہم اب بھی امید اور یقین کے ساتھ قومی آزادی کی عظیم تحریک سے وابسطہ ہیں۔ ہمیں کسی کے سرٹیفکٹ کی ضرورت نہیں۔ نہ ہم نے پارٹی ڈسپلین کی خلاف ورزی کی ہے اور نہ ہی آئین کو پامال کیا، بلکہ ڈسپلن اور آئین کی دھجیاں انہوں نے خود اڑائی ہے۔ ان کے خیال میں یہ رہنماء خفیہ طریقے سے پاکستانی حکمرانوں سے ڈیل کرکے تحریک کو لپیٹ دینگے۔ یہ قبائلی اور شخصی سحر سے باہر نہیں نکلے ہیں، مگر اب 1970ء کی دھائی نہیں ہے اور نہ ہی عالمی حالات اور خطے کی صورتحال 1970ء کی دھائی جیسی ہے اور نہ ہی بلوچ قومی تحریک کسی قبیلے یا کسی شخصیت کے گرد گھوم رہی ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جڑیں بہت مضبوطی کے ساتھ پیوست ہوچکی ہیں۔
‏‎
اگر ہمارے رہنماء یہ سمجھتے کہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کرکے ہفت آسمان فتح کرینگے تو جائیں کرکے دیکھ لیں، پھر انہیں اندازہ ہوگا کہ پاکستان انہیں چند مراعات اور چند خوشامد کے سوا کچھ دے ہی نہیں سکتا۔ آج ہمارے ان رہنماؤں کو جو عزت مقام اور وقار نصیب ہوسکا، تو یہ سب قومی آزادی کی تحریک اور ہمارے عظیم شہدا کی جانگسل جدوجہد کی مرہون منت ہے، ورنہ تحریک کے بغیر ان کی کوئی حیثیت نہیں۔ ہاں یہ اپنے قبیلے کے رہنماء ضرور ہونگے جس طرح اسلم رئیسانی اور ثنااللہ زہری ہیں۔ یا پھر واپس جاکر وہاں اپنی ایک پارٹی بنائینگے جس طرح ڈاکٹر مالک کی بھی ایک پارٹی ہے۔ تو انہیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیئےکہ کام نکل جانے کے بعد جس طرح پاکستانی ریاست نے مالک اور ثنااللہ زہری کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال باہر پھینکا ایسے ہی ان کا بھی مقدر ہوگا۔
‏‎
یہ ایک فطری امر ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی اور عزت بہت پیارے ہوتے ہیں اور ان کی حفاظت کے لیئے وہ سب کچھ کرگذرتا ہے۔ یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہےکہ پاکستانی بحران زدہ ریاست میں بلوچ قوم کی زندگی اور عزت محفوظ نہیں اور حیرت کی بات ہے کہ آج ہمارے رہنماؤں کے پاس بھی بلوچ قوم کی زندگی اور عزت محفوظ نہیں ہے۔ یہ کچھ بھی کرلیں لیکن قومی آزادی کی تحریک کو کوئی طاقت اپنے منزل تک پہچنے سے نہیں روک سکتا اور وہ منزل بلوچ قوم اور مادروطن بلوچستان کی آزادی ہے۔ کیونکہ قومی تحریک آزادی کے بنیادوں میں ہمارے شہید قائد واجہ غلام محمد اور ان کے ساتھی لالا منیر بلوچ ، شیر محمد بلوچ ، ہمارے عظیم جنرل شہید بالاچ مری ، ہمارے عظیم کمانڈر شہید خالد بلوچ، ہمارے عظیم کمانڈر شہید امیر بخش لانگو( شہید سگار )،ہمارے عظیم بزرگ ہستی ڈاڈا ئےبلوچ نواب شہید اکبر خان بگٹی، ہمارے معلم آزادی شہید صباء دشتیاری( قندیل) ہمارے بزرگ محترم بابو نوروز خان اور آپکےعظیم جانثار ساتھیوں، ہمارے جواں سال شہید حمید بلوچ ،شہید مجید بلوچ ،شہید فدااحمدبلوچ، شہید اسد اللہ مینگل، شہید سفرخان اور ہزاروں شہدا کا مقدس لہو شامل ہے اور پاکستانی ایجنسیوں کے ہاتھوں گمشدہ کیئے گئے ہزاروں بلوچ فرزندوں کی امنگیں اور آرزوئیں مچل رہی ہیں۔