منظور پشتین: یہ مبارک ٹوپی مجھے ایک مزدور نے دی

1211

 

پشتون تحفظ مومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے پچھلے دو مہینوں میں پشتونوں میں جتنی شہرت پائی ہے، اتنی ہی شہرت منظور پشتین کی پہنی ہوئی ٹوپی نے پائی ہے، جسے آج کل آمو سے لے کر آباسین تک پشتون پہنتے ہیں۔

یہ ٹوپی اکثر آمو دریا کے پاس افغانستان کے شمالی صوبوں میں لوگ پہنتے ہیں، لیکن اب اس ٹوپی کو اباسین کے پاس خیبر پشتونخوا کے لوگ بھی منظور پشتین کی پیروی میں پہن رہے ہیں۔

منظور پشتین نے یہ ٹوپی کہاں لی اور کیوں انہیں پسند آئی، وہ اس کے بارے میں کہتے ہیں:

“ہمارے گاوں میں لوگ غریب ہیں، وہاں پر ایک جوان تھا جو مزدوری کرتا تھا، ایک دن اس نے ٹوپی اپنے سر سے اتاری اور کہا کہ یہ غریبی کی ٹوپی ہے، کہیں اچھی ٹوپی نہیں ملتی، میں نے اس سے کہا کہ یہ مجھے دے دو۔ جس دن سے یہ ٹوپی میں نے پہنی ہوئی ہے، بہت ہی مبارک ٹوپی ہے”۔

اسلام آباد میں جاری دس روزہ احتجاج کے دوران جب لوگوں نے منظور پشتین کی سر پر اس ٹوپی کو دیکھا، تو پشتونوں کی نظر میں آگئی اور جب پشتون تحفظ مومنٹ کے احتجاجی جلسے پشتونوں کی اور شہروں تک پہنچ گئی، خصوصاً بلوچستان کے پشتون شہروں تک، تو اس کے بعد بہت سارے پشتونوں نے منظور پشتین کی پیروی میں اس ٹوپی کو پہن لیا۔

منظور پشتین ایک اور جگہ کہتے ہیں، کہ ایک اور بندے کو دیکھا، جو گلی کوچوں کو صاف کرتا تھا، اس نے کہا کہ آپ کی ٹوپی بہت خوبصورت ہے، تو میں نے اس کو اپنی ٹوپی دی اور اس کی ٹوپی لے لی۔

“میں کہتا ہوں کی غریب انسان کی چیز چاہے جتنی ہی کم قیمت کی ہو، لیکن اللہ پاک کے نزدیک وہ بہت بڑی قیمت رکھتی ہے۔ بہرحال میں اب وہ ٹوپی کسی کو نہیں دونگا۔ اسلام اباد میں احتجاج کے دوران ایک بندے نے مجھے کہا، کہ اس ٹوپی کو ہٹادو، یہ تو وہ لوگ پہنتے ہیں، جو ہوٹلوں میں کام کرتے ہیں”۔

اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس ٹوپی نے شہرت لی، ہر پشتون اس ٹوپی کو بازار میں خرید کر یا کسی دوست سے لے کر اس کے ساتھ تصویر لیتا اور فیسبک پر شئیر کرتا۔ اس ٹوپی کی مقبولیت نہ صرف جوانوں میں، بلکہ خواتین اور بچوں میں بھی بڑھ گئی اور انہوں نے بھی اپنی تصویریں فیسبک پر شئیر کی۔

جب مارچ کے مہینے میں کابل میں پشتون تحفظ مومنٹ کی حمایت میں خیمہ لگایا گیا، تو اس میں جمع سب لوگوں منظور پشتین کی ٹوپی پہنے ہوئے تھے، جس سے اس ٹوپی کی مقبولیت اور بھی بڑھ گئی۔ لیکن یہ ٹوپی اس وقت پشتونوں کی حقوقوں کی اور حق کی علامت بن گئی، جب افغانستان کے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران نے اس کو پہنا۔

اب سیاستدانوں اور سوشل ایکٹیویسٹ کے علاوہ عام لوگوں کو بھی یہ ٹوپی بھاگئی اور اس کو پہننا فخر سمجھتے ہیں، اس لئے تو کابل اور پشاور کے بازاروں میں اس ٹوپی کی فروخت میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

کابل کے پل خشتی مسجد کے نزدیک ایک ٹوپی فروش محمد ایوب نے وی او اے اشنا سے بات کرتے ہوئی کہا کہ یہ ٹوپی پہلے “مزاری ٹوپی” کے نام سے مشہور تھی، لیکن اب ہر کوئی آکے اس کو “منظور پشتین کی ٹوپی” کہتا ہے، جس کی قیمت اب 200 سے 300 تک افغانی ہے۔

“یہ ٹوپیاں پہلے اتنی نہیں بکتی تھی، صرف مزار شریف کے لوگ اسے خریدتے تھے، لیکن اب اس کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے اور پشتون اسے بہت زیادہ خرید رہے ہیں۔ خوست، پکتیا اور جلال آباد کے لوگ اب اس ٹوپی کو زیادہ پہنتے ہیں”

منظور پشتین کی فیسبک اکاونٹ میں ان کی بہت ساری تصویریں ہیں، جس میں زیادہ تر انہوں نے چترالی ٹوپی یا پکول پہنی ہوئی ہیں اور کچھ میں تو انہوں نے کوئٹہ کی مشہور کالی ٹوپی یا بلوچی ٹوپی بھی پہنی ہوئی ہے۔ کچھ تصویروں میں وہ ننگے سر بھی ہیں۔ لیکن اب جب اس تحریک میں مزاری ٹوپی منظور پشتین کی ٹوپی کے نام سے مشہور ہوئی ہے، تو اس کے بعد منظور پشتین کو کوئی اور ٹوپی پہنتے نہیں دیکھا گیا ہے۔

دنیا میں ان لیڈروں کی ٹوپیاں بہت مشہور اور انقلاب کے سمبل کے طور پر پہچانی جاتی ہیں، جنہوں نے آزادی کیلئے جدوجہد کی ہے، خاص طور پر ارجنٹائن کے انقلابی رہنما چی گویرا کی ٹوپی، جس پر ستارے بھی بنے ہوئے تھے، ساری دنیا میں اسے آزادی اور انقلاب کی سمبل کے طور پر مانا جاتا ہے۔