معدنی وسائل ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بلوچستان – کاظم بلوچ

656

معدنی وسائل ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اور بلوچستان

تحریر کاظم بلوچ

جنرل سیکرٹری پریس کلب نوکنڈی فورم

کرہ ارض پر سرزمین بلوچ ایک ایسا خطہ ہے کہ جو اپنے محل وقوع ، خدوخال ، ساحل سمندر وسط ایشیائی گیٹ وے کی حیثیت ، تیل و گیس اور خاص کر معدنیات کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا میں موجود ملٹی نیشنل کمپنیوں کی توجہ کا مرکز بلکہ ضرورت بن چکی ہے، اسے بلوچ کی خوش قسمتی سمجھیں یا بدقسمتی کہ وہ ایک ایسے خطے میں رہ رہا ہے کہ جو اپنی جغرافیائی لحاظ اور معدنی وسائل کے باعث ایشیاء میں ایک مضبوط معاشی قوت بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، تیل و گیس معدنی وسائل و ذخائر اور ساتھ ہی پوری دنیا کی تجارت اورسرمایہ کاری اس خطے کی منتظر ہے۔ وہاں اس وقت پوری بلوچستان میں مختلف پروجیکٹس پر کام ہورہا ہے، اس وقت بلوچستان میں مختلف ممالک کی متعدد ملٹی میشنل کمپنیاں کام کررہی ہیں۔

سیندک اور گوادر میں چائنا اور ریکوڈک میں دنیا کی دیگر ساجھے دار کمپنیاں کام کرکے ان ذخائر پر اپنا ہاتھ صاف کرنے پر تُلی ہوئی ہیں، کہ جس پر بی ایچ پی نے کام شروع کیا تھا، جسے ایک اسٹریلوی کمپنی اور لاکھانی برادرز نے کام کرکے اس کے ذخائر عالمی بازار حصص میں رکھ کر چلی کی فاگسٹا اور بیرک گولڈ کمپنی کو فروخت کردیئے، یہ دونوں کمپنیاں پوری دنیا میں سونے اور تانبے کے ذخائر پر کام کرنے کے حوالے سے بڑا نام رکھتی ہیں، ان کمپنیوں کے تانے بانے امیریکہ ، یورپ ، سی آئی اے ، ایف بی آئی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ملتے ہیں۔ اسی تناظر میں جب ہم بلوچستان کے مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں، تو ہمیں ایک خونی حالت اور افراتفری نظر آئے گی کیونکہ ملٹی کمپنیوں کو احتجاج ، قتل و غارت گری ، قوموں کی حقوق کہ جدوجہد ، حکومتوں کے شیرازہ بکھرنے سے کوئی سروکار نہیں ، بلکہ انہیں سرمایہ اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔

ارضِ بلوچ کے معدنی وسائل پوری دنیا کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو اپنی جانب لبھارہی ہیں ، ملٹی نیشنل کمپنیاں غریب ممالک اور تیسری دنیا کے لوگوں میں اتنی سرایت کرچکی ہیں کہ لوگوں کو اہنے ملک اقوام متحدہ کے جھنڈے کا رنگ یاد نہیں مگر وہ کوکا کولا ، پیپسی ، کے برانڈ سے ضرور واقف ہونگے، جس جگہ صاف پانی موجود ہے وہاں بھی پینے کے لیئے منرل واٹر ضرور پہنچ چکا ہے، آگر دنیا میں کہیں بھی قدرتی آفات آجائے، تو یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں پیش پیش رہتی ہیں، تاکہ ایک طرف ہمدردی کے طور پر لوگوں کی امداد کرسکیں تو دوسری طرف اپنے برانڈ کی مشہوری کرسکیں، تاکہ لوگ اس برانڈ کو استعمال کرسکیں، یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں جس ملک میں کام کرتی ہیں، وہاں انہوں سے سیاسی مشکلات سے بچنے کے لیئے مقامی سرمایہ داروں کے حصص رکھے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے پاکستانی سرمایہ داروں کو کمپراڈو کلاس کہا جاتا ہے، یہ ملٹی میشنل کمپنیوں کی دلالی میں مصروف ہوتی ہیں، اب جبکہ عالمی سطح پر جنگیں ملٹی نیشنل کمپنیاں ہی کراتی ہیں اور امیر ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور ان کی سیاسی قیادت ہی ملکر اپنی کمپنیوں اور ملکوں کی معیشت کو سہارا دینے کے چکروں میں لگی رہتی ہیں، یہ ممالک ملٹی نیشنل کمپنیوں کی آڑ میں تیسری دنیا کے ممالک کے تیل و گیس و معدنی وسائل پر اپنا ہاتھ صاف کررہی ہیں اور پوری دنیا کو جنگ میں جھونک کر انہیں جنگی اسلحہ و سازوسامان سے منافع کمانا ہوتا ہے، چاہے یہ جنگیں مذہب کے نام پرہوں، قومیت کے نام پر ہوں یا دہشت گردی کے نام پر ہوں ان کو اصل میں منافع کمانے سے غرض ہوتا ہے۔اس وقت پوری دنیا میں ، جہاں افغانستان، عراق، یمن ، شام،لیبیا میں وسائل پر قبضہ کرنے کے لیے مہم جوئی کی جارہی ہے، اسی طرح آذربائیجان میں برٹش پیٹرولیم کمپنی کی فنڈنگ کسی تعارف کہ محتاج نہیں، اسی طرح فاشسٹ سہارتو کے ساتھ مل کر لاکھوں انسانوں کے قتل عام میں امریکی اوربرطانوی سامراج نے مل کر کام کیا اور ان تمام سامراجی اقدامات کے پیچھے بڑے بڑے اجارہ دار کمپنیاں ہوتی ہیں، جو انکی فنانسنگ کرتی ہیں۔ ان سامراجی قوتوں کے حکمران جب تیسری دنیا کےممالک کا دورہ کرتے ہیں تو براہ راست سرمایہ کاری کے بجائے اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو پروموٹ کرتی ہیں، جبکہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں سامراجی ممالک کے مفادات کے عین مطابق کام کرتی ہیں۔ جس طرح چائنا کی کمپنیاں، گوادر، حب، سیندک میں کام کررہی ہیں، اس وقت بلوچستان کے سرزمین کے چپے چپے کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں نیلام کیا جا چکا ہے، بلوچستان کے نقشے پر کوئی ایسا خالی حصہ نہیں جہاں پر ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی ملکیت سے بے بہرہ ہوں بلکہ بلوچستان کے ساحل وسائل بلکہ پانی تک کو ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جاچکا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیاں پوری دنیا میں معدنی وسائل نکالنے کے لیئے ایسی جگہوں کا انتخاب کرتی ہیں، جہاں نایاب وسائل بمشکل خام مال موجود ہوں، مثلاً تانبا، تیل، وغیرہ اور ملٹی نیشنل کمپنیاں یہ دیکھتی ہیں کہ کس طرح دور دراز جگہوں پر اشیاءاشیاء کوکم قیمت پر خریدا جاسکتا ہے اور بھاری منافع پر بیچا جاسکے گا اور جو وسائل اس سرزمین کے باسیوں کی ہوتی ہے وہ محروم در محروم رہ جاتے ہیں، اور حکمران کمپنیوں سے ساز باز کرکے وسائل بے دردی سے لوٹ لیتی ہیں۔

یہ سسستی محنت ، سستے خام مال کی خاطر پوری دنیا میں اپنا کاروبار پھیلادیتی ہیں ، اور ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کو آگر کوئی نفع کما کر نہ دےتو اسے نوکری سے جواب مل جاتا یے، چونکہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں فلاحی نہیں ہوتیں، اس لیئے نفع کمانے میں ان کی جان ہوتی ہے اور نفع کمانا ہی انکی زندگی ہے، ان کے پاس انسانیت، مساوات عدل و انصاف اور رحم جیسے اقدار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی، ان کو کسی علاقے کے ترقی اور غربت دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی، گولی بنائیں ، بندوق بیچیں ، ایٹم بم ، ہایڈروجن بم یا کیمیکل گیسز بنائیں جس سے دنیا کا امن خراب ہی کیوں نہ ہو، جنگیں ہونگی تو تب موت کا سامان تیار ہونگیں اور بکیں گیں، آگر ملکوں کے درمیان جنگیں کرانے سے ان کا منافع بڑھتا ہے تو یہ ملکوں کو آمادہ بہ جنگ کرتی ہیں۔

اشتہار بازی کے ذریعے لوگوں میں نئی نئی ضروریات زندگی میں اضافہ کرنا، ان کارپوریشنوں کے حق میں ہے، چیزیں بنائیں، بیچیں ماحول کو ۔گندہ کریں ، معدنی ذخیروں کو لوٹیں، جنگلات کو تباہ کریں ان کے لیئے جائز اور واجب ہے کیونکہ اس سے وہ منافع کماتی ہیں، ملٹی نیشنل کمپنیاں چاہتی ہیں، کہ غریب ملکوں کی صنعتوں کا دیوالیہ نکل جائے، ان کا سسٹم فیل ہوجائے، امیر ممالک اور ملٹی نیشنل کمپنیاں ایک ہی تھالی کے چٹے بٙٹے ہیں اور یہ غریب ممالک کو قرض دے کر آئی ایم ایف ورلڈ بینک ڈبلیو ٹی او اور دوسرے اداروں کی تلواریں، ان کے سر پر لٹکاتی ہیں، اور اپنی مرضی سے ان غریب ممالک کے وسائل کو ساز باز کرلیتی ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیاں سرمائے کے حصول کے لیےہر طریقہ واردات استعمال کرتی ہیں۔

قارئین ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کردار پر لکھنے کا مقصد ان کے کردار سے آگہی دینا مقصود تھا ، اب چونکہ بلوچستان میں ریکودک کےمقام پر دنیا کی دو تین بڑی کمپنیاں ان وسائل جو کہ سونے اور تانبے کے ذخائر پر پھن پھیلائے بیٹھی ہیں کہ جس کے ابتدائی ذخائر جومعلوم ہوئے ہیں وہ ہانچ سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ ہیں، ریکودک پروجیکٹ کے معاملات میں وفاقی حکومت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساز باز میں بلوچ مفادات کویکسر نظر انداز کیا گیا ہے۔ وسائل اور بندر بانٹ میں بلوچ کی کوئی حیثیت نہیں رکھی گئی ہے، تو دوسری طرف ریکودک پروجیکٹ پر چائنا کی ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا ہاتھ صاف کرنا چاہتی ہیں، بلوچ وطن کے گرم پانیوں کے حصول کے لیئے پہلے ہی یورپ، امیریکہ، روس اور چائنا کے درمیان سرد جنگ جاری ہے اور اب کاریڈور نے خطے میں ای گہما گہمی کی نئی لہر پیدا کر رکھی ہے۔ ہر طرف سے اس کوریڈور کے روٹ کے حوالے مختلف االخیال جماعتوں کی جانب سے مختلف آراء آرہی ہیں، بلوچستان میں ساحل و وسائل کے حوالے سے ایک کشمکش جاری ہے، بہتر یہی ہے کہ ملٹی ننیشنل کمپنیوں کے مفادات اور سیاست دانوں کے مفادات کے برعکس بلوچستان کے مفادات کے تحت ریکودک ، وسائل کا فیصلہ کیا جائے، جسطرح کوریڈور کے حوالے سے مختلف اعتراضات سامنے آرہی ہیں ، ایسا نہ ہو کہ گوادر کاریڈور کی طرح ریکودک کے معدنی وسائل پر بلوچستان کی سیاسی جماعتوں ، وکلاء ، سول سوسائٹی کو اے پی سی بلانا پڑے۔۔۔۔۔۔۔۔