پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن نے اپنی سالانہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بلوچستان میں سال 2025 کے دوران کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے مختلف حادثات کے نتیجے میں 89 کانکن جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
فیڈریشن کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق صرف دسمبر 2025 کے دوران 7 کان حادثات رپورٹ ہوئے، جن میں 8 کانکن جانبحق ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں کے حادثات کی شرح دیگر صوبوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ رہی۔
رپورٹ کے مطابق سال 2025 کے دوران خیبر پختونخوا میں 41، پنجاب میں 14 اور سندھ میں 6 کانکن مختلف کان حادثات میں جانبحق ہوئے، تاہم سب سے زیادہ اموات بلوچستان میں رپورٹ ہوئیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں پیش آنے والے حادثات معمول بنتے جا رہے ہیں، جن کی بڑی وجہ حفاظتی اقدامات کا فقدان قرار دیا جاتا ہے۔
لیبر فیڈریشن کے مطابق بلوچستان میں گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران کوئلہ کانوں کے حادثات میں مجموعی طور پر 618 کانکن جانبحق ہو چکے ہیں، جو کان کنی کے شعبے میں حفاظتی انتظامات کی مسلسل ناکامی کی عکاسی کرتا ہے۔
پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے رہنما سلطان محمد خان نے کہا کہ بلوچستان میں کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے کان کنوں کو دم گھٹنے، زہریلی گیس کے اخراج، کانوں کی چھتیں گرنے، دھماکوں اور پھیپھڑوں کی مہلک بیماریوں جیسے شدید خطرات کا سامنا رہتا ہے۔
ماہرین اور انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے مطالبہ کرتی آ رہی ہیں کہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے تحفظ کے لیے مؤثر حفاظتی انتظامات کیے جائیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ کان کنوں کی جانوں کا تحفظ ان کا بنیادی حق ہے، جسے یقینی بنانے کے لیے کانوں میں حفاظتی قوانین پر مؤثر عملدرآمد، جدید حفاظتی آلات کی فراہمی اور کانوں کے معائنہ کے نظام کو فعال بنایا جائے۔
حکام کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے کان کنی کے شعبے میں بین الاقوامی حفاظتی معیارات اپنانا ناگزیر ہے تاکہ مزدوروں کی قیمتی جانوں کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے۔

















































