ماما سکندر کرد – سید محبوب شاہ

54

ماما سکندر کرد

تحریر: سید محبوب شاہ

دی بلوچستان پوسٹ

یہ 27 اگست 2016 کی سرد صبح تھی۔ میں قرآن پاک کی تلاوت میں مشغول تھا کہ اتنے میں میرے موبائل کی گھنٹی بجی، سامنے والے نے مجھے مخاطب کرکے میرے انتہائی قریبی ساتھی ماما سکندر کرد کی وفات کی خبر دی۔ یہ المناک خبر سن کر گویا میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی، میں سکتے میں پڑ گیا۔ یوں لگا جیسے میں نے اپنا ایک عظیم اثاثہ کھو دیا ہو۔

ماما سکندر کرد بلاشبہ ایک زبان دوست، نیشنلسٹ، وطن پرست اور سب سے بڑھ کر بلوچ قوم کا درد رکھنے والے انتہائی سخی انسان تھے۔ ان کی رحلت نہ صرف ان کے احباب کے حلقوں بلکہ بلوچ قوم کے لیے ایک سانحے سے کم نہیں۔

ماما سکندر کرد 1953 میں شاہ محمد کرد کے گھر پیدا ہوئے۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ پرائمری اسکول وحدت کالونی بروری روڈ کوئٹہ سے حاصل کی۔ مزید تعلیم کے لیے وہ سنڈے مین بوائز ہائی اسکول میں داخل ہوئے، جہاں انہوں نے مڈل کے بورڈ کا امتحان پورے بلوچستان میں ٹاپ کیا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے سائنس کالج کوئٹہ کا رخ کیا، جہاں وہ بلوچ طلبا سیاست سے جڑ گئے۔ وہ نواب خیر بخش مری اور بالاچ گورگیج کے مزاحمتی فلسفے سے بے حد متاثر تھے اور آخری سانس تک ان کے فلسفے سے جڑے رہے۔

بلوچستان میں “NAP” (نیشنل عوامی پارٹی) کی حکومت کے خاتمے کے بعد بلوچ اہم سیاسی رہنماؤں جن میں نواب خیر بخش مری، سردار عطا اللہ مینگل، میر گل خان نصیر اور میر غوث بخش بزنجو سمیت بلوچ طلبا کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

13 اور 14 اگست کی درمیانی شب سکندر کرد کو ان کے کزن عبدالرحمٰن رند کے ہمراہ ان کے گھر واقع بلوچ کالونی بروری روڈ کوئٹہ سے خفیہ اداروں نے اٹھا کر غائب کر دیا۔ کئی روز قلعہ کیمپ میں انسانیت سوز مظالم سہنے کے بعد انہیں سی آئی اے کے حوالے کیا گیا۔ اس کے بعد ان کا جوڈیشل ریمانڈ کرکے انہیں کوئٹہ سینٹرل جیل ہدہ منتقل کیا گیا۔

جنوری 1977 میں سپزنڈ ریلوے اسٹیشن لاکر بذریعہ ٹرین کراچی جیل منتقل کیا گیا۔ چار ماہ تک وہ کراچی سینٹرل جیل میں رہے۔ کراچی جیل میں جیل سپرنٹنڈنٹ کے نامناسب اور غیر انسانی رویے کے خلاف انہوں نے اپنے ساتھیوں محمد رحیم، دوست محمد، محمد نور، محمد اکرم، محمود لہڑی اور عبدالرسول لہڑی کے ہمراہ بھوک ہڑتال کی۔ جیل انتظامیہ کی بے شمار کوششوں کے باوجود جب وہ انہیں توڑ نہ سکے تو انہیں دوبارہ کوئٹہ سینٹرل جیل منتقل کر دیا گیا۔

ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ان کے چند ساتھی، جن میں دوست محمد، محمد نور، محمد اکرم، حمل خان اور بہرام خان شامل تھے، سینٹرل جیل کوئٹہ سے فرار ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد جیل انتظامیہ نے مزید سختیاں شروع کر دیں۔ باقی ماندہ سیاسی قیدیوں کو بشمول ماما سکندر کرد، پاؤں میں زنجیر لگا کر مچھ جیل منتقل کر دیا گیا۔ تین ماہ تک مسلسل دن رات زنجیریں لگی رہیں۔ آٹھ ماہ تک مچھ جیل میں رہنے کے بعد ایک مرتبہ پھر انہیں کوئٹہ جیل منتقل کیا گیا۔

اس وقت چونکہ سندھ بلوچستان ہائی کورٹ ایک ہی ہوا کرتی تھی، ماما سکندر کرد اور ان کے ساتھیوں کا کیس سندھ ہائی کورٹ میں ایڈووکیٹ میر علی دوست بگٹی، ایڈووکیٹ یوسف کرد، اور ایڈووکیٹ امیر الملک مینگل چلا رہے تھے۔ بالآخر 10 مارچ 1978 کو انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا۔

1980 کے اوائل میں وہ دبئی چلے گئے۔ وہاں بھی وہ اپنی سخاوت اور بلوچ دوستی کی عادت پر قائم و دائم رہے۔ بلوچ سیاسی رہنما جب کبھی مڈل ایسٹ جاتے تو وہ ماما سکندر کرد کے مہمان ہوتے۔ سات سال طویل جلاوطنی کے بعد جب وہ بلوچستان واپس آئے تو اپنے آبا و اجداد کی زمین جو موضع متورہ غربی تحصیل دشت ہزار گنجی میں واقع تھی، اس کی سیٹلمنٹ کروانے میں شب و روز محنت کی۔

اس دوران وہ کمال جوانمردی سے تحصیل کے کرپٹ افسران کے سامنے ڈٹے رہے اور ان بلاجواز راضی ناموں کو ختم کروا کر زمین کو سیٹل کروانے میں کامیاب ہو گئے۔ وقت گزرتا گیا اور بلوچ قومی تحریک ایک مرتبہ پھر زور پکڑنے لگی۔ ریاست نے بلوچ سیاسی کارکنان کو غائب کرنا شروع کر دیا۔

ان سیاسی کارکنان کی بازیابی کے لیے پریس کلب کوئٹہ اور پریس کلب کراچی کے سامنے احتجاجی کیمپ لگنے شروع ہوئے۔ ان کیمپوں کے تمام اخراجات ماما سکندر کرد اپنی جیب سے اٹھاتے۔ جب بلوچ خواتین پینل کا قیام عمل میں لایا گیا تو ماما سکندر کرد وہ اولین بلوچ تھے جنہوں نے اپنے گھر کی خواتین کو سیاسی کارکنان کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج کے لیے لایا۔ اکثر “جانز بک اسٹال” سے روزانہ کی بنیاد پر اخبار اور جریدے ان کیمپوں میں بھیجے جاتے جن کا بل بھی ماما سکندر ادا کرتے۔

بی ایس او آزاد کے اکثر ممبران، جن میں چیئرمین زاہد بلوچ، سلام صابر، قمبر چاکر، شاہ زیب بلوچ، مختار بلوچ، سنگت ثناء، ذاکر مجید بلوچ، مشتاق بلوچ اور دیگر شامل تھے، اکثر اوقات ماما سکندر کے گرد جمع رہتے تھے۔ گویا ماما سکندر ان کے لیے ایک شفیق باپ اور محترم استاد تھے۔

سلام صابر ان کے سامنے مزاحاً عراقی ڈکٹیٹر صدام حسین کی تعریف کرتے تو ماما سکندر انہیں ڈانٹتے اور اخبار رول کر کے مارنے کی کوشش کرتے۔ ایک دن ماما قدیر نے شکایت کی کہ ایک پاگل نما شخص رات کو کیمپ میں آ کر چیزوں اور شہدا کی تصویروں کو خراب کرتا ہے۔ اگلے دن ماما سکندر نے کچھ لڑکوں کی ڈیوٹی لگائی کہ اس شخص کو ضرور پکڑنا ہے۔ اچانک وہ شخص ماما سکندر کے ہتھے چڑھ گیا، پھر وہ پاگل تھا اور ماما سکندر — اس کی ایسی درگت بنائی کہ اس نے دوبارہ کیمپ کا رخ نہ کیا۔

ان کی بیٹھک بی این ایم اور بی ایس او آزاد کا تربیتی مرکز تھی۔ چیئرمین غلام محمد بلوچ، ڈاکٹر منان بلوچ جب بھی کوئٹہ تشریف لاتے تو ماما سکندر کے ہاں ٹھہرتے۔ پروفیسر صباء دشتیاری سے تو ان کی روزانہ ملاقات اور سیاسی تبادلہ خیال ہوتا۔

9 اپریل 2009 کو واجہ غلام محمد کی شہادت کے بعد پورے بلوچستان میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ اس دوران بی ایس او آزاد کے ساتھی گرفتار ہوئے تو تھانے اور جیل کے تمام اخراجات ماما نے اپنے ذمے اٹھائے۔ حتیٰ کہ ان کی ضمانت بھی ماما سکندر کرد اور ان کے بھائی ظفر کرد نے کروائی۔

مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب ابراہیم صالح کو ایک لمبے عرصے تک غائب کرکے قید میں رکھنے کے بعد خفیہ اداروں نے انہیں ہدہ جیل کوئٹہ میں منتقل کیا، تو یہی ماما سکندر تھے جو ان کی ضمانت کرانے ہدہ جیل پہنچے اور انہیں ضمانت پر رہائی دلوا کر ان کی فیملی کے حوالے کیا۔

اس طرح کے بے شمار واقعات اور قصے ہیں جو ماما سکندر سے جڑے ہیں۔ گوادر کے ایک ساتھی عبدالکریم، جو مختلف مقدمات میں پھنسے ہوئے تھے، وہ بھی ماما سکندر کی ضمانت پر جیل سے چھوٹے۔ کریم کی ضمانت کے وقت ماما کی طبیعت بھی ناساز تھی۔ زمین کا فرد جب پنجابی جج نے غور سے پڑھنے کے بعد ماما سے دریافت کیا کہ یہ “کتونی” کیا بلا ہے تو ماما سکندر نے جج کو مخاطب کرکے کہا: “تمہارے آبا و اجداد پکوڑے بیچتے تھے، لہٰذا زمین کا فرد اور کتونی تمہاری سمجھ سے بالاتر ہے۔” اس پر جج اور ماما کے درمیان کافی بحث ہوئی۔

اسی طرح جب مکران کے ایک سنگت فضل حیدر مچھ جیل میں بند تھے تو ماما اپنے رشتہ داروں کے ذریعے راشن، عید کے کپڑے تک انہیں پہنچاتے۔ عراقی صدر صدام حسین کے ظلم سے تنگ آ کر جب عراقی کرد جلاوطن ہو کر 1990 میں کوئٹہ آئے تو یہاں بابو عبدالرحمن کرد اور ماما سکندر کرد نے ان کی رہائش سمیت تمام ذمہ داریاں اٹھائیں۔

سال 1992 میں جب عراقی کردوں نے یو این آفس چمن ہاؤسنگ سوسائٹی کے سامنے احتجاج کیا تو اس دوران پولیس سے مڈبھیڑ ہوئی، ماما سکندر بھی سینکڑوں کردوں سمیت گرفتار ہو کر سٹی پولیس اسٹیشن کوئٹہ میں بند ہوئے۔ ایک اور احتجاج میں جب 100 سے زیادہ عراقی کرد مرد و زن کو گرفتار کرکے مچھ لے جایا گیا تو ماما سکندر کرد فوراً مچھ پہنچے اور انہیں ضمانت پر واپس لے آئے۔

جون 2005 میں انہوں نے شمالی کردستان کا دورہ بھی کیا۔ ماما سکندر کرد کی وطن سے محبت اور بلوچ دوستی کمال کی تھی۔ وہ شوگر سمیت مختلف عارضوں میں مبتلا تھے مگر اس کے باوجود احتجاجوں میں روزانہ کی بنیاد پر حاضر ہوتے۔ وہ اتنے زیادہ پرعزم تھے کہ اکثر احتجاجوں میں ان کا شوگر لیول کم ہو جاتا اور انہیں غشی آنے لگتی، تو بلوچ بیٹیاں ان سے منت سماجت کرکے انہیں گھر بھیجنے کی کوشش کرتیں، مگر جب تک احتجاج پر آئی ہوئی آخری بلوچ خاتون کو گھر روانہ نہ کرتے، وہ سکون سے نہ بیٹھتے۔

آج وہ جسمانی طور پر ہم میں موجود نہیں، مگر ان کا مزاحمتی فلسفہ جو انہوں نے آنے والی نسلوں تک منتقل کیا، اب بھی اپنے آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔ جس بلوچ معاشرے کا انہوں نے خواب دیکھا تھا، اور جس کے لیے تمام عمر انہوں نے اذیتیں برداشت کیں، زندانوں کی صحبتیں سہیں، وہ بلا شبہ اپنی منزل کے قریب ہے۔

ماما کے ہاتھوں کے بے شمار بچے پس زندان ہوئے، اکثر کی مسخ شدہ لاشیں انہوں نے خود دفنائیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنے سفر میں کئی قریبی ساتھی کھوئے، مگر وہ بلوچ قومی آزادی کے عظیم فلسفے سے جڑے رہے اور کبھی لغزش نہیں کھائی۔

ان کی آخری خواہش تھی کہ وہ شہداء قبرستان نیو کاہان مری کیمپ میں اپنے ساتھی شہداء کے ساتھ دفن ہوں مگر ان کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی۔ حالانکہ مجھ سمیت ان کی فیملی اور قریبی دوستوں نے انتھک کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے۔

ہمارا ایمان ہے کہ وہ آج بھی بلوچ فرزندوں کی قربانیوں کو دیکھ کر فخر محسوس کر رہے ہوں گے۔ ان کا لگایا گیا بیج اب ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ ان کا خواب ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔