الوداع ماما
تحریر: حکیم واڈیلہ
دی بلوچستان پوسٹ
سوچیے آپ نے اپنا لختِ جگر کھو دیا ہو، پھر آپ اس کی تلاش میں سالہا سال جدوجہد کرتے رہے۔ گاؤں، دیہات، گلیاں، محلے اور شہر کی خاک چھانتے رہیں، مگر آپ کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہ آئے۔
سوچیے آپ کی تلاش جاری ہو اور ایک دن کسی ویرانے سے آپ کو اپنے لختِ جگر کی مسخ شدہ لاش مل جائے۔ وہ لاش جس پر تشدد کے نشان ہوں، جس پر گولیوں کے زخم ہوں۔ ایک ایسی لاش جو خوف اور دہشت کا منظر پیش کرے اور آپ کو یہ پیغام دے کہ آپ کی تلاش، آپ کی چیخ، آپ کی پکار، آپ کی جدوجہد اور آپ کا انصاف کا مطالبہ سب بے معنی ہیں۔ اگر کسی چیز کی اہمیت ہے تو وہ ہے طاقتور کی طاقت، جو جب چاہے، جسے چاہے، جیسے چاہے جبری گمشدگی کا شکار بنا دے، انسانیت سوز تشدد کرے اور پھر اس کی لاش کو مسخ کر کے کسی سڑک کے کنارے، کسی جنگل میں، کسی ندی میں یا کسی پہاڑ پر پھینک کر چلا جائے۔
ایسے حالات میں، جب انسان اتنے بڑے صدمے کے بعد ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے، اس بزرگ شخص نے نہ صرف خود کو سنبھالے رکھا بلکہ وہ اپنی پوری برادری، اپنے اجتماع اور اپنی قوم کا ماما کہلانے لگا۔ وہ ماما جو بلوچستان کی ہر بہن، ہر بیٹی، ہر بیٹے، ہر بزرگ، ہر نوجوان اور ہر بچے کی جدوجہد کا حصہ بن گیا۔ وہ جدوجہد جو بلوچوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف تھی۔
وہ جدوجہد جو بلوچ لواحقین کو یہ شعور دیتی تھی کہ اپنے لاپتہ پیاروں کے کوائف مکمل کرنا، ان کی جبری گمشدگی پر ایف آئی آر درج کروانا، اور ان کے کیسز عدالتوں سمیت علاقائی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے لانا انتہائی ضروری ہے، ورنہ ریاست کی جانب سے لوگوں کو جبری گمشدگیوں کے بعد مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں ویرانوں میں پھینکنے کا سلسلہ کبھی بند نہیں ہوگا۔
اس بزرگ شخص نے موجودہ دور کا سب سے طویل پُرامن احتجاجی کیمپ چلائے رکھا۔ یہ کیمپ مختلف پریس کلبوں کے سامنے لگتا رہا۔ اس کیمپ میں جبری گمشدہ افراد کے لواحقین، سیاسی اور سماجی کارکنان اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد آتے جاتے رہے، مگر ایک چہرہ ہمیشہ نمایاں رہا۔ ایک چہرہ جو مستقل موجود تھا، ایک آواز جو اس احتجاجی کیمپ کو زندہ رکھتی تھی، اور وہ آواز ماما قدیر کی تھی۔
ماما قدیر بلوچ نے نہ صرف جبری گمشدگیوں کے خلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کی قیادت کی بلکہ جبری گمشدگی کے شکار افراد کی بازیابی کے لیے ایک تاریخ ساز لانگ مارچ کی سربراہی بھی کی، جو کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک گیا۔ اس لانگ مارچ کے دوران انہیں دھمکیاں دی گئیں، ان پر جان لیوا حملہ کیا گیا، مگر وہ ثابت قدم رہے۔
ماما قدیر بلوچ جبری گمشدگیوں کی ایک مؤثر آواز بن کر امریکہ اور یورپ میں اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس سیشنز کے دوران بھی اپنی بات رکھتے رہے۔ انہوں نے قریباً چھ ہزار دنوں تک جبری گمشدگی کا شکار افراد کی آواز بن کر ایک مسلسل اور مؤثر جدوجہد جاری رکھی۔ اس جدوجہد کے دوران انہیں دھمکیاں دی گئیں، ڈرایا گیا، لالچ دیے گئے، لاپتہ افراد کے کیمپ کو متعدد بار گرایا گیا اور نذر آتش کیا گیا، مگر ماما قدیر کی ہمت، ان کی جرات، ان کے حوصلے، ان کی بہادری اور ان کی کمٹمنٹ کو نہ توڑا جا سکا اور نہ ہی خریدا جا سکا۔
ماما قدیر جب تک حیات رہے، جبری گمشدگی کے شکار افراد اور ان کے لواحقین کا سہارا بنے رہے۔ آج بھی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جاری کیمپ ایک امید ہے، جو ماما قدیر اور ان کے ساتھیوں کی انتھک محنت کا نتیجہ ہے۔
ماما آج ہم میں جسمانی طور پر موجود نہیں، مگر ان کی میراث زندہ ہے۔ جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کی جدوجہد اور اس احتجاجی کیمپ کا تسلسل اس بات کی گواہی ہے کہ وہ آج بھی اس تحریک کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ انہوں نے ہزاروں دن سردیوں، گرمیوں، بارشوں اور بیماری کی حالت میں، ڈرپ لگائے ہوئے بھی، اپنے کیمپ کو جاری رکھا۔ یقیناً ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ جب تک جبری گمشدگی کا مسئلہ یکسر ختم نہیں ہو جاتا، جب تک لوگ بازیاب نہیں ہوتے اور جب تک مجرموں کو سزا نہیں ملتی، یہ کیمپ جاری رہے۔
الوداع ماما۔
آپ کی جدوجہد، آپ کا کردار اور آپ کی انتھک کوششیں اگر تحقیق کا موضوع بنیں تو پُرامن مزاحمت کی تاریخ میں ایک ایسے باب کا اضافہ ہوگا جو اس سے پہلے نہ پڑھا گیا ہوگا اور نہ ہی سنا گیا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔


















































