بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے مرکزی ترجمان نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جہاں ایک جانب معیاری تعلیم اور بہتر اداروں کا فقدان ہے، وہیں دوسری جانب بلوچ طلبہ کو اعلیٰ تعلیم سے دور رکھنے کے لیے نئی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں۔ بلوچستان کے طلبہ کے لیے مختص ‘گُڈ وِل’ کوٹے کی پالیسی میں بلاجواز تبدیلی دراصل ان کی تعلیمی راہ مسدود کرنے کے مترادف ہے۔ جن طلبہ نے سال 2024 کے سیشن میں میڈیکل کا انٹری ٹیسٹ پاس کیا اور ڈویژنل میرٹ کی بنیاد پر جن کا داخلہ ملک کے دیگر صوبوں کے میڈیکل کالجز میں ہونا تھا، انہیں یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز (یو ایچ ایس) نے اپنی پالیسی کے تحت ایک سال تک انتظار کروایا۔ اب جب داخلوں کا وقت قریب آیا تو یو ایچ ایس نے اچانک پالیسی تبدیل کر دی ہے، جس کے مطابق سال 2024 کے طلبہ کو اب 2025 کے امیدواروں کے ساتھ نئے سرے سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ اس غیر منصفانہ فیصلے سے ان طلبہ کی نشستیں داؤ پر لگ گئی ہیں جن کا داخلہ رواں سال یقینی تھا۔
ترجمان نے بیان میں کہا ہے کہ طلبہ کا موقف ہے کہ سابقہ پالیسی حکومتِ بلوچستان اور حکومتِ پنجاب کے مابین طے شدہ معاہدے کا حصہ ہے، لہٰذا اس میں اچانک تبدیلی ان کے تعلیمی مستقبل کے خلاف ایک سازش ہے۔ دوسری جانب، بولان میڈیکل کالج (بی ایم سی) کی انتظامیہ بھی ان طلبہ کو داخلہ دینے سے انکاری ہے؛ پرنسپل کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ حکومت اور یو ایچ ایس کے دائرہ اختیار میں ہے۔ اس کشمکش میں طلبہ کا نہ صرف ایک قیمتی تعلیمی سال ضائع ہو رہا ہے بلکہ مخصوص نشستوں میں ممکنہ کمی ان کے کیریئر کو تباہ کر رہی ہے۔
مزید کہا ہے کہ ہم بحیثیت طلبہ تنظیم یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے مخصوص ڈویژنل کوٹہ سسٹم کو ختم کرنا پسماندہ علاقوں کے محنتی طلبہ کے ساتھ زیادتی ہے۔ نشستوں میں کسی بھی قسم کی کمی مجموعی طور پر ایک بڑا تعلیمی نقصان ہے۔ ہم متاثرہ طلبہ کے مطالبات کو جائز سمجھتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں اور حکومتِ وقت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس مسئلے کا فوری نوٹس لیا جائے۔ بصورتِ دیگر، ہم اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے متاثرہ طلبہ کے ہمراہ پُرامن احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔

















































