تاریخ کے پنوں پر لکھی گئی موت – میار بلوچ

38

تاریخ کے پنوں پر لکھی گئی موت

تحریر: میار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قومی تشکیل کا سفر انتہائی طویل اور پُرکٹھن ہوتا ہے۔ کہیں قومی تشکیل میں صدیاں بیت جاتی ہیں اور کہیں ہزاروں سال کا سفر طے کرنے کے بعد بھی قوموں کا وجود برقرار نہیں رہ پاتا۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ قومی تشکیل کا یہ سفر انہی گروہوں نے کامیابی سے طے کیا ہے جنہوں نے قومی و اجتماعی مفادات کو ذاتی مفادات پر ہمیشہ اولیت دی۔

انسان اس دنیا میں پل دو پل کا ہی مہمان بن کر آتا ہے۔ اس کی پیدائش سے لے کر موت تک کا سفر یہ طے کرتا ہے کہ وہ کیسا انسان تھا۔ پیدائش اور موت کے درمیان کیے گئے فیصلے ہی انسان کو یا تو کسی بلند مرتبے پر فائز کرتے ہیں، یا وہ ایک عام سی زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، یا پھر تاریخ کے پنوں میں ایسے نقوش چھوڑ جاتا ہے جو اس کی ذات، زندگی اور موت تینوں کو انمول بنا دیتے ہیں۔

ایسے کردار اپنی پیدائش اور موت کے درمیان مسلسل سوال کرتے رہتے ہیں۔ وہ اپنی قوم کے اجتماعی مفاد کے دفاع میں ہمہ وقت مصروفِ عمل ہوتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ غلام پیدا ہونا گناہ نہیں، لیکن غلامی کو قبول کر کے اسے اپنی قسمت بنا لینا، طوقِ غلامی میں جینا اور مر جانا نہ صرف گناہِ کبیرہ ہے بلکہ اجتماعی موت اور بدترین بزدلی کی علامت بھی ہے۔

یہ افراد عموماً ایسے ادوار میں جنم لیتے ہیں جب قوموں پر غلامی شب خون مار چکی ہوتی ہے، جب انسان جہالت کے اندھیروں میں ڈوبے ہوتے ہیں، جب قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر ذاتی مفاد کو اجتماعی مفاد پر فوقیت دی جا رہی ہوتی ہے۔ حقیقی مسائل سے چشم پوشی کر کے قوموں کی بدحالی کو نصیب سے جوڑ دیا جاتا ہے، اور یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ غلامی ہم پر کسی غیبی عذاب کی صورت نازل ہوئی ہے، جس سے نجات ممکن نہیں۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ہمیں انہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہنا ہے اور اپنے آقاؤں کی اطاعت کو ہی اپنی تقدیر سمجھنا ہے۔ یہاں تک کہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چاہے ظلمت کے پہاڑ توڑے جائیں، ہم بحیثیتِ قوم نہ آواز اٹھا سکتے ہیں، نہ جدوجہد کر سکتے ہیں اور نہ ہی ہماری آواز کبھی سنی جائے گی۔

ایسے حالات میں کچھ منفرد کردار جنم لیتے ہیں۔ وہ باقی لوگوں سے مختلف سوچتے ہیں، ان کا اندازِ بیان جدا ہوتا ہے۔ ان کی باتیں لوگ سنتے اور سمجھتے تو ہیں، مگر ان کا ساتھ دینے اور ان کی ہمراہی کرنے سے ہچکچاتے اور خوف زدہ رہتے ہیں۔ بعض لوگ تو انہیں کافر قرار دے دیتے ہیں، محض اس لیے کہ وہ آقاؤں کی زبان میں بات نہیں کرتے۔ انہی میں سے کچھ لوگ ان کی شکایت اپنے آقاؤں تک بھی پہنچاتے ہیں۔

لیکن یہ منفرد لوگ نہ فتوؤں سے خاموش ہوتے ہیں اور نہ ہی آقاؤں کے دبدبے سے۔ وہ وہی بات کہتے رہتے ہیں جو اکثر لوگوں کو ابتدا میں عجیب لگتی ہے، یہاں تک کہ رفتہ رفتہ لوگوں کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ یہ باتیں دراصل ان کی وہ حقیقی تاریخ ہیں جو ان سے چھپائی گئیں، نہ انہیں پڑھائی گئیں، نہ سنائی گئیں، نہ دکھائی گئیں۔ بلکہ انہیں ان کے خیالوں اور خوابوں سے تک مٹا دیا گیا، اور اس کی جگہ آقاؤں کی وہ تاریخ مسلط کی گئی جس کے مطابق زمین زادے گناہ گار، وحشی اور درندہ ثابت کیے گئے۔

وہ لوگ جو ہزاروں سالوں سے اپنی زمین پر آباد تھے، انہیں ظالم قرار دے کر ان پر ظلم و بربریت ڈھائی گئی۔ قتلِ عام ہوا، مال و دولت، گھر، مویشی، زمین، زیرِ زمین وسائل اور معدنیات سب کچھ لوٹ لیا گیا، اور پھر یہ کہا گیا کہ تم نہ صرف گناہ گار اور وحشی ہو بلکہ انتہائی غریب بھی ہو۔ اب ہم تمہاری مدد کریں گے، تم سے اربوں لوٹ کر، ایک پیسہ دے کر، اور پھر اس پر احسان بھی جتائیں گے۔

ان تمام حالات میں، کچھ سرکردہ لوگ جو اپنی تاریخ، زبان، ثقافت اور قومی مفادات سے واقف تھے، وہ ذاتی مفادات کی خاطر آقاؤں کے صفوں میں جا بیٹھتے ہیں اور اجتماعی شعور و قومی مفاد کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔

جب یہ منفرد کردار اپنے پیغام، اپنے کردار اور اپنے عمل کے ذریعے قومی آواز بن کر ابھرتے ہیں تو ان کی انتھک جدوجہد قوموں کی تاریخ کا رخ بدل دیتی ہے۔ آقاؤں کی اصلیت بھی عیاں ہو جاتی ہے، جنہوں نے زمین زادوں پر زمین تنگ کر رکھی ہوتی ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھ آنے لگتا ہے کہ اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوا تھا تو وہ یہی تھا کہ انہوں نے طوقِ غلامی کو خود اپنے گلے کا پھندا بنا لیا تھا اور زندگی کو موت سے بدتر سمجھ کر اسے اپنی قسمت مان لیا تھا۔

یہی وہ عظیم منفرد کردار ہوتے ہیں جن کا عمل صدیوں بعد بھی مشعلِ راہ بن جاتا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل عمل سے عبارت ہوتی ہے۔ وہ نہ تھکتے ہیں، نہ ہارتے ہیں۔ نہ بیماری، نہ بھوک، نہ افلاس اور نہ ہی نیند ان کے راستے میں رکاوٹ بن پاتی ہے۔ انہیں نہ خریدا جا سکتا ہے اور نہ جھکایا جا سکتا ہے۔

جب یہ کردار تاریخ کا دھارا موڑتے ہیں تو قابض، ظالم اور جابر طاقتیں انہیں مٹانے کی کوشش کرتی ہیں۔ کیونکہ قابض یہ سمجھتا ہے کہ جسم کو فنا کر دینے سے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے، مگر وہ یہ نہیں جانتا کہ جسم کا خاتمہ نظریات کا خاتمہ نہیں ہوتا۔ بلکہ موت زندگی کو نیا معنی عطا کرتی ہے، اسے مکمل کر دیتی ہے۔

اپنے وطن، اپنی قوم، اپنی آزادی، اپنی جدوجہد اور اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے دفاع میں شہادت کا مرتبہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔ عام موت تو نیند میں دل کی دھڑکن رک جانے سے بھی آ سکتی ہے، یا سڑک پار کرتے ہوئے کسی حادثے میں بھی۔ مگر وہ موت جو تاریخ بدل دے، جو ایک قوم کو روح عطا کرے، جو بزدلوں کو بہادر بنا دے، اور جو مرنے کے فلسفے کو امر کر دے، ایسی موت تاریخ میں صرف جنرل اسلم بلوچ اور اس جیسے منفرد انسانوں کو نصیب ہوتی ہے کیونکہ موت انہیں نہیں چنتی، وہ خود اپنی موت کا انتخاب کرتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کا ہر قدم انہیں موت کے قریب لے جا رہا ہے، پھر بھی وہ قومی شعور کے عمل کو جاری رکھتے ہیں، دشمن پر پے در پے کاری ضربیں لگاتے ہیں اور ایسی مہلک جنگی حکمتِ عملی اختیار کرتے ہیں کہ دفاعی پوزیشن کو جارحانہ پوزیشن میں بدل دیتے ہیں۔ یہی وہ عمل ہوتے ہیں جو ریاستوں کی نیندیں اڑا دیتے ہیں۔

وہ قومی مفادات کے دفاع میں جارحانہ جنگ لڑتے ہوئے اپنے ساتھیوں سمیت قربان ہو کر امر ہو جاتے ہیں۔ آج ان کا کاروان پہلے سے زیادہ شدت اور بہتر حکمتِ عملی کے ساتھ دشمن پر کاری ضربیں لگا رہا ہے۔ آج دنیا بھر میں بلوچ قومی جنگ کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ بلوچوں کے جری سپہ سالار جنرل اسلم بلوچ اور ان کے ساتھیوں کی زندگی، جدوجہد، کردار اور شہادت نہ صرف بلوچ قوم اور بلوچ قومی تحریک کی رہنمائی کرتی رہے گی بلکہ بلوچ قومی مفادات کا دفاع بھی ہمیشہ کرتی رہے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔