تربت: بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی کے خلاف سی پیک شاہراہ بدستور بند

57

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کا شکار ایک ہی خاندان کے چار افراد تاحال منظرِ عام پر نہیں آ سکے۔

بلوچستان کے ضلع کیچ کے علاقے کرکی تجابان کے مقام پر تیسرے روز بھی سی پیک شاہراہ بلاک رہی، جس کے باعث گاڑیوں کی طویل قطاریں لگ گئیں، انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات ایک بار پھر ناکام رہے۔

دھرنا دینے والے اہلِ خانہ کے مطابق ان کے خاندان کے چار افراد کو پاکستانی فورسز نے گزشتہ دنوں حب چوکی اور کیچ سے جبری طور پر لاپتہ کیا، جہاں وہ رہائش پذیر تھے۔

پاکستانی فورسز کے ہاتھوں حراست کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بننے والوں میں آٹھ ماہ کی حاملہ 27 سالہ ہانی بنت دل جان، 17 سالہ حیرالنساء بنت عبدالواحد، 18 سالہ مجاہد ولد دل جان اور 18 سالہ فرید ولد اعجاز شامل ہیں۔

اہلِ خانہ نے واضح اعلان کیا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی تک احتجاج اور ہڑتال ختم نہیں کی جائے گی، ڈپٹی کمشنر کیچ بشیر احمد بڑیچ کی ہدایت پر اسسٹنٹ کمشنر تربت محمد حنیف کبزئی اور علاقائی معتبرین نے مظاہرین سے مذاکرات کیے، تاہم کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچا جا سکا۔

روڈ بلاک ہونے کے باعث مال بردار اور مسافر گاڑیوں کی آمدورفت شدید متاثر ہے، جبکہ مظاہرین نے اعلیٰ حکام سے فوری نوٹس لینے اور لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ادھر بلوچستان میں خواتین کی جبری گمشدگیوں کے بڑھتے واقعات اور تربت میں دھرنا دینے والے لواحقین کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے پانچ روزہ احتجاجی مہم بھی جاری ہے۔

تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ وہ بلوچستان بھر میں خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف پانچ روزہ احتجاجی مہم چلائے گی، جبکہ انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیتے ہوئے لاپتہ افراد کی بازیابی میں مؤثر کردار ادا کریں۔