کوئٹہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قید رہنما اور معروف بلوچ سیاسی کارکن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ماما قدیر بلوچ کے انتقال پر جیل سے جاری اپنے بیان میں انہیں بلوچ قومی تحریک کا ایک مثالی، ثابت قدم اور ناقابلِ فراموش اثاثہ قرار دیا ہے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ اپنی غیر متزلزل استقامت، قربانی اور طویل جدوجہد کے باعث ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے والد کی جبری گمشدگی کے دوران انھیں نواب اکبر بگٹی کی شہادت کی خبر ایک باسی روٹی میں لپٹے پرانے اخبار کے ذریعے ملی تھی، جسے میرے والد اپنی زندگی کا ایک گہرا نفسیاتی صدمہ قرار دیتے تھے، اسی طرح گزشتہ نو ماہ سے قید کے دوران بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کی خبریں مسلسل ان تک پہنچتی رہی ہیں۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ملاقات کے لیے آنے والوں سے ان کا پہلا سوال اکثر یہی ہوتا ہے کہ آیا آج پھر کوئی بے گناہ قتل ہوا ہے اور ریاست نے مزید کتنے بلوچ نوجوانوں اور بیٹیوں کو لاپتہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 20 دسمبر کو آنے والا اخبار ان کے لیے ایک اور دکھ بھری خبر لے کر آیا، اسی روز بلوچ سیاسی رہنما بانک کریمہ کی پانچویں برسی تھی اور وہ اپنی قید ساتھیوں گلزادی اور بیبو کو کراچی سے تمپ تک ان کی میت کی منتقلی کی مشکلات سنارہی تھیں کہ اسی دوران ماما قدیر بلوچ کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ماما قدیر کو بلوچ قومی تحریک کا ایک اصولی اور ثابت قدم سیاسی کارکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے سولہ برس تک بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے مسلسل جدوجہد کی، ماما قدیر کی قیادت میں قائم لاپتہ افراد کا کیمپ بلوچستان کے ہر سیاسی کارکن، بشمول خود ماہ رنگ بلوچ، کی ابتدائی سیاسی تربیت کا ایک اہم ذریعہ رہا۔
ماہ رنگ بلوچ نے کہا اس کیمپ میں آویزاں تصاویر نے دو دہائیوں تک دنیا کے سامنے بلوچ نسل کشی کی ہولناک تصویر پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ ایسے وقت میں جب پاکستانی میڈیا بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر خاموش تھا اور ضمیر فروش سیاستدان نام نہاد ترقی کے جھوٹے بیانیے گھڑ رہے تھے، ماما قدیر کا کیمپ ریاستی خونریزی اور جبر کو بے نقاب کرتا رہا۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق جب بلوچستان کی سرزمین لاشیں اگل رہی تھی اور بلوچ حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والی بیشتر سیاسی قیادت یا تو جبری گمشدگی کا شکار ہوچکی تھی یا شہید کردی گئی تھی، جن میں ماما قدیر کے اپنے بیٹے جلیل ریکی بھی شامل تھے، تب بھی ماما قدیر نے بیٹے کے غم میں ڈوبنے کے بجائے دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر اٹھائی وہ ریاستی جبر کا شکار خاندانوں کے لیے حوصلے، استقامت اور مزاحمت کی علامت بن گئے۔
انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے لاپتہ افراد کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات میں اضافہ ہوتا گیا کیمپ کی ایک دیوار پر “لاپتہ نوجوانوں کی تصاویر” کی جگہ “شہید نوجوانوں کی تصاویر” آویزاں کی جانے لگیں، بلوچ نسل کشی میں تیزی آنے کے بعد ماما قدیر نے نئے پوسٹرز بنوانے کے بجائے تصاویر کے ساتھ محض “بازیاب” یا “شہید” لکھنا شروع کردیا۔
ماہ رنگ بلوچ کے مطابق ان سولہ برسوں میں ماما قدیر نے اپنی ذاتی زندگی کو مکمل طور پر اجتماعی جدوجہد کے ساتھ جوڑ دیا تھا، تاہم جب بھی وہ کسی صحافی یا سیاسی کارکن سے بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر گفتگو کرتے اور اپنے شہید بیٹے جلیل ریکی کا ذکر آتا تو ان کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے، آنکھوں میں بیک وقت غم اور غصہ نمایاں ہو جاتا، وہ بتایا کرتے تھے کہ وہ جلیل کے بیٹے کو اپنی قبر پر لے جا کر بتاتے ہیں کہ ریاست نے اس کے والد کو بدترین تشدد کے بعد قتل کیا، تاکہ ان کے بعد یہ بچہ بلوچ قومی تحریک کا حصہ بن سکے۔
ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ان کے والد کہا کرتے تھے کہ اگر کبھی میری قید سے دل شکستہ ہو جاؤ تو ماما قدیر کے کیمپ میں آویزاں تصاویر دیکھ لینا، کیونکہ وہ گواہی دیتی ہیں کہ لوگ برسوں سے لاپتہ ہیں، والد کی شہادت کے بعد اسی کیمپ کی تصاویر نے انہیں زندگی کا نیا مقصد اور سمت عطا کی۔
انہوں نے کہا کہ میں نے ماما قدیر کی غیر متزلزل مزاحمت کو قریب سے دیکھا، بابا خیر بخش مری کے رحلت کے بعد ان کے جسدِ خاکی کے حصول کی جدوجہد میں بھی ماما قدیر ثابت قدمی سے کھڑے رہے، ایک ایسے دور میں جب خوف کے باعث اکثر خاندان خاموش تھے ماما قدیر نے لاپتہ بلوچ بیٹوں کو فراموش نہیں کیا بلکہ ان کے کوائف جمع کر کے ان کے نام اور تصاویر عوام کے سامنے لاتے رہے۔
بیان کے آخر میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ماما قدیر بلوچ بلوچ قومی تحریک کی ایک مثالی اور دائمی سیاسی شخصیت تھے ان کی قربانی، جرات اور مسلسل جدوجہد بلوچ قومی تحریک سے وابستہ تمام سیاسی کارکنوں کے لیے مشعلِ راہ ہے، ماما قدیر بلوچ مزاحمت، حوصلے اور جدوجہد کی ایک زندہ علامت تھے اور ہمیشہ رہیں گے۔


















































