حلب میں جھڑپوں کے بعد شامی حکومت اور ایس ڈی ایف کشیدگی کم کرنے پر متفق

43

شام کے سرکاری حکام اور کُردوں کے زیرِ قیادت متحرک سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے کشیدگی کم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

یہ پیشرفت پیر کو حلب میں حملوں کی لہر کے بعد سامنے آئی ہے جن میں کم سے کم دو شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ فریقین نے ایک دوسرے پر حملوں کا الزام لگایا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا نے وزارت دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ فوج کی جنرل کمان نے ایس ڈی ایف کے ذرائع کو نشانہ بنانے سے روکنے کا حکم جاری کیا ہے۔

دوسری جانب اس کے تھوڑی دیر بعد ایس ڈی ایف نے بھی بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا  کہ حکام کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے سے متعلق رابطوں کے بعد حملوں کا جواب نہ دینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

شام کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ ایس ڈی ایف کی جانب سے رہائشی علاقے پر شیلنگ کے نتیجے میں دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے اور زخمی ہونے والوں میں دو بچے اور دو سول ڈیفنس کے اہلکار شامل ہیں۔

تشدد کی یہ لہر ترکیہ کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کے دمشق کے دورے کے دوران اس بیان کے چند گھنٹے بعد پھیلی جس میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ایس ڈی ایف ریاستی فوج میں ضم ہونے کا ارادہ نہیں رکھتی جس کے لیے سال کے آخر میں ڈیڈلائن طے شدہ ہے۔

ترکیہ ایس ڈی ایف کو ایک دہشت گرد گروہ کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کو خبردار کیا ہے کہ اگر اس نے معاہدے کی پابندی نہ کی تو پھر اس کے خلاف فوجی ایکشن کیا جائے گا۔

فریقین ایک دوسرے پر راہ میں روڑے اٹکانے اور بری نیت کے الزامات لگاتے ہیں۔ ایس ڈی ایف اس خود مختاری کو چھوڑنے سے گریزاں ہے جو اس نے امریکی اتحادی کی حیثیت سے جنگ میں حاصل کی اور اس کی بدولت اسے داعش کی جیلوں اور تیل کے بھرپور وسائل کا کنٹرول ملا۔

نیوز ایجنسی سانا کی جانب سے قبل ازیں بتایا گیا تھا کہ وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ایس ڈی ایف نے حلب کے علاقے میں فوج پر اچانک حملے کیے جس سے کچھ افراد زخمی ہوئے تاہم ایس ڈی ایف نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں حکومت کے ہی کچھ گروہ ملوث ہیں اور وہ شہری علاقوں میں ٹینکوں اور بڑے اسلحے کا استعمال کر رہے ہیں۔

شامی وزارت دفاع نے ایس ڈی ایف کے بیان کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس کی جانب سے کہا گیا کہ مسلح افواج ایس ڈی ایف کے حملوں کا جواب دے رہی ہیں۔

حلب میں ایک عینی شاہد نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم مارٹر گولوں کی آوازیں سن رہے ہیں اور علاقے میں فوج کی بھاری نفری موجود ہے۔‘

ایک اور عینی شاہد کا کہنا تھا کہ ’شدید دھماکے ہو رہے ہیں اور صورت حال بہت خوفناک ہے۔‘

حلب شہر کے گورنر نے واقعے کے بعد تمام سرکاری اور نجی سکولوں، دفاتر اور دوسرے مقامات پر عارضی چھٹی کا اعلان کیا تھا۔