بانک کریمہ بلوچ کی پانچوی برسی: بی این ایم کا لندن میں تقریب

0

بلوچ نیشنل موومنٹ “بی این ایم” کی جانب سے لندن میں بی ایس او آزاد کے سابق چیئر پرسن اور پارٹی رہنماء بانک کریمہ بلوچ کے پانچویں یوم شہادت کی مناسبت سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا۔

بی این ایم کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق اس موقع پر سیاسی رہنما، دانشور، انسانی حقوق کے کارکنان اور دیگر مظلوم اقوام کے نمائندگان موجود تھے، جنھوں نے بلوچ تحریک کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا، مختلف اقوام بالخصوص سندھی، پشتون، کشمیری اور گلگت بلتستان کے لوگوں کی اس تقریب میں شرکت محکوم اقوام کے باہمی اتحاد کی علامت تھی۔

پروگرام کے آغاز میں نظامت کے فرائض انجام دینے والے بی این ایم کی ممبران ماہ گنج بلوچ اور درین بلوچ نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا۔

شرکاء نے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی تاکہ ان کی زندگی، جدوجہد اور قربانی کو یاد کیا جا سکے، اس کے بعد بلوچ خواتین نے انھیں اسٹیج پر آکر خراج عقیدت پیش کیا، آرٹسٹ سنجی بلوچ کی طرف سے بنائے گئے ان کے پورٹریٹ پر پھول نچھاور کیے گئے اور ان کی یاد میں شمعیں روشن کی گئیں۔

بعد ازاں ایک مختصر دستاویزی فلم ’’ بانک کریمہ : زندگی، جدوجہد اور میراث ‘‘ دکھائی گئی جس میں بانک کریمہ بلوچ کے سیاسی سفر ان کی بے باک قیادت، اور عالمی سطح پر مزاحمت کی علامت کے طور پر ان کی دائمی میراث کو اجاگر کیا گیا۔

سیمینار میں زرمبش پبلی کیشنز کی جانب سے شائع کی گئی کتاب کریمہ بلوچ اسٹوڈنٹ لیڈر سے عالمی مزاحمت کی علامت تک کی تقریب رونمائی بھی ہوئی پروگرام کے اختتام پر بانک کریمہ کی یاد میں تیارہ کردہ نغمہ پیش کیا گیا جسے بی ایس او آزاد کے میڈیا سیل نے تیار کیا ہے ۔

اس تقریب سے بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ مصنف ڈاکٹر نصیر دشتی، یونیورسٹی آف لندن کے اسکالر اور اس او اے ایس ساؤتھ ایشیا سینٹر کے رکن برزین واگھمر، ورلڈ سندھی کانگریس “برطانیہ و یورپ” کی ڈپٹی آرگنائزر فہمیدہ خشک، انسانی حقوق کی کارکن نور مریم کنور، پشتون تحفظ موومنٹ کی نمائندہ برخنہ سید اور بانک کریمہ کی چچازاد بہن مھلب کمبر نے خطاب کیا۔

اس موقع پر ڈاکٹر نسیم بلوچ، چیئرمین بلوچ نیشنل موومنٹ نے اپنے خطاب میں بانک کریمہ بلوچ کو ایک غیر معمولی سیاسی بصیرت اور شعور رکھنے والی رہنما قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ اگرچہ بلوچ، سندھی، پشتون اور کشمیری اقوام کی تکالیف مختلف نظر آتی ہیں، لیکن اصل وجہ ایک ہی ہے پنجابی زیرِ تسلط فوجی ریاست جو خود کو پاکستان کہتی ہے۔

انھوں نے زور دیا کہ کریمہ بلوچ پر جلاوطنی مسلط کی گئی یہ ان کا ذاتی انتخاب نہیں تھا اور اس کے باوجود انھوں نے اپنے لوگوں کے لیے وقار اور آزادی حاصل کرنے کی جدوجہد جاری رکھی، ڈاکٹر نسیم بلوچ کے مطابق ان کی زندگی اور شہادت نے پاکستانی ریاست کی نوآبادیاتی نوعیت اور مظلوم اقوام پر منظم جبر کو بے نقاب کیا۔

انھوں نے مغربی حکومتوں پر انسانی حقوق کے اصولوں کے غیر مساوی نفاذ پر تنقید کی اور سوال کیا کہ کچھ خطوں میں قبضہ اور جبر کی مذمت کی جاتی ہے لیکن بلوچستان اور دیگر مظلوم علاقوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے کیوں ؟

انھوں نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے نہ صرف فوجی قبضے بلکہ تاریخ، زبان، وسائل، اور سیاسی اختیار کے قبضے کو بھی چیلنج کیا، اختتام میں انھوں نے کہا کہ آزادی انتہا پسندی نہیں بلکہ انسانی فطری جبلت ہے اور خطے میں امن ممکن نہیں جب تک پاکستان کا نوآبادیاتی ڈھانچہ ختم نہ ہو اور مظلوم اقوام آزادی حاصل نہ کریں۔

مصنف اور سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر نصیر دشتی نے کہا کہ بانک کریمہ بلوچ کو ایک پیش رو کے طور پر یاد رکھا جائے گا جنھوں نے بلوچ قومی جدوجہد کی بنیادیں بدل دیں، انھوں نے ان کے تاریخی کردار کا موازنہ نواب اکبر بگٹی سے کیا اور کہا کہ کریمہ نے نئی نسل، خاص طور پر بلوچ خواتین کو سیاست اور مزاحمت میں فعال حصہ لینے کے لیے متاثر کیا۔

نصیر دشتی نے کہا آج کی بلوچ قیادت کو بہادر اور اصولی فیصلے کرنے، عالمی حالات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے اور قوم کے لیے وقار اور اتحاد حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔

یونیورسٹی آف لندن کے سکالر اورساؤتھ ایشیا سینٹر کے رکن برزین واگھمر نے پاکستان کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سخت تنقید کی اور کریمہ بلوچ کے قتل کی ذمہ داری پاکستان کی ڈیپ اسٹیٹ پر ڈالی۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی نظراندازی اور استثنا کا فائدہ اٹھاتے ہوئےپرامن سرگرم کارکنان کو جلاوطنی میں بھی نشانہ بناتا ہے۔

انھوں نے شفاف تحقیقات میں کینیڈا کے حکام کی ناکامی اور بلوچستان میں وسائل کے استحصال میں بین الاقوامی مفادات کے کردار پر بھی سوال اٹھایا، واگھمر نے انتباہ کیا کہ ایسے جرائم پر خاموشی اکثر مالی اور سیاسی ملی بھگت کے ذریعے خریدی جاتی ہے۔

ورلڈ سندھی کانگریس کی برطانیہ اور یورپ میں نائب منتظم فہمیدہ خشک نے کہا کہ کریمہ بلوچ نے بلوچ نوجوانوں کو منظم کرنے اور جبری لاپتہ افراد اور ماورائے عدالت قتل کے عالمی شعور کو بڑھانے میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں، کریمہ کی جدوجہد جنس اور جغرافیہ سے بالاتر تھی اور ان کی شہادت بلوچ اور سندھی دونوں قوموں کے لیے مشترکہ نقصان کی نمائندگی کرتی ہے، کریمہ بلوچ کی میراث مظلوم اقوام میں سیاسی سرگرمی اور مزاحمت کو متاثر کرتی ہے۔

انسانی حقوق کی کارکن نور مریم کنور نے کہا کہ اجتماعی سزا بلوچ قوم کے خلاف استعمال ہونے والے سب سے ظالمانہ طریقوں میں سے ایک ہے، انھوں نے انسانی حقوق کی معروف کارکن اور جبری لاپتہ افراد کی بازیابی تحریک کی سرکردہ نوجوان شخصیت ماہ زیب شفیق کے والد کی جبری گمشدگی کا ذکر کیا کہ کس طرح ریاست خاندانوں کو دبانے کے لیے نشانہ بناتی ہے۔

انھوں نے بلوچ خواتین کی ریڈ مارچ کو کریمہ بلوچ کی جدوجہد کا تاریخی تسلسل قرار دیا اور کہا کہ کریمہ نے شدید دباؤ کے وقت بھی خواتین کو منظم کرنے میں رہنمائی فراہم کی۔

اس حوالے سے پشتون تحفظ موومنٹ کی نمائندہ برخنہ سید نے بلوچ جدوجہد کے ساتھ یکجہتی ظاہر کی اور کہا کہ جبری گمشدگیاں اور اجتماعی سزا پشتون علاقوں میں بھی روزمرہ حقیقت بن چکی ہیں، کریمہ بلوچ کو امید کی علامت قرار دیا، جو پدرانہ رکاوٹوں کو توڑ کر ریاستی جبر کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی ہیں۔

انھوں نے کریمہ کی موت کے سرکاری دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شہادت بین الاقوامی دباؤ اور ظلم کے خلاف مزاحمت کی علامت ہے۔

انھوں نے کہا کہ کریمہ نے جبری لاپتہ افراد کے لیے ریلیاں اور احتجاجات منظم کیے اور بلوچ نسل کشی کے خلاف مسلسل آواز بلند کی، کریمہ نے جدوجہد کو خود تک محدود نہیں رکھا بلکہ اجتماعی شمولیت کی ترغیب دی، اور ہمیشہ بلوچ قوم کے بہتر مستقبل کے لیے کوشش کی۔

انھوں نے مزید بتایا کہ کریمہ ایک سیاسی طور پر شعور رکھنے والے خاندان میں پیدا ہوئیں، جہاں ان کے چچا واحد کمبر اور ڈاکٹر خالد نے قومی جدوجہد کے لیے اپنی زندگیاں وقف کیاَ بار بار ریاستی چھاپوں اور دھمکیوں کے باوجود، کریمہ اپنے خاندان کے لیے طاقت، حوصلہ اور استقلال کا ذریعہ رہیں۔

مھلب نے کہا کریمہ کی موجودگی، رہنمائی، اور مستقل عزم نے انھیں بلوچ تحریک کو برقرار رکھنے اور آگے بڑھانے میں ایک مرکزی شخصیت بنایا۔