ماما قدیر بلوچ سوگواروں کی موجودگی میں سوراب میں سپردِ خاک

42

تدفین میں انسانی حقوق کے کارکنان، سیاسی و سماجی شخصیات، قبائلی عمائدین، خواتین اور عوام کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سولہ سال تک بھوک ہڑتالی کیمپ کی قیادت کرنے والے بزرگ بلوچ انسانی حقوق کے علمبردار عبدالقدیر ریکی، المعروف “ماما قدیر بلوچ”، طویل علالت کے بعد وفات پا گئے۔

ماما قدیر بلوچ گزشتہ روز کوئٹہ کے آریا اسپتال میں 85 برس کی عمر میں انتقال کر گئے، جن کی آج ہزاروں سوگواروں کی موجودگی میں آبائی علاقے سوراب کیچی بیگ میں تدفین کی گئی۔

تدفینی مراسم کے دوران مختلف سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت مختلف مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی اور مرحوم کو خراجِ عقیدت پیش کیا۔

ماما قدیر بلوچ ایک ریٹائرڈ بینک ملازم تھے سال 2009 میں ان کے صاحبزادے اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما جلیل ریکی کو پاکستانی فورسز نے جبری طور پر لاپتہ کیا، جس کے بعد ماما قدیر بلوچ نے جبری گمشدگیوں کے خلاف اپنی جدوجہد کا آغاز کیا۔

بعد ازاں جلیل ریکی کی لاش برآمد ہوئی، تاہم اس صدمے کے باوجود ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھی۔

ماما قدیر بلوچ نے 2013 میں بلوچستان میں جبری گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خلاف کوئٹہ سے کراچی اور بعد ازاں کراچی سے اسلام آباد تک تقریباً تین ہزار کلومیٹر طویل فاصلہ پیدل لانگ مارچ کے ذریعے طے کیا۔

انہوں نے جبری گمشدگیوں کے خلاف امریکہ، یورپ اور جنیوا میں بھی مہمات چلائیں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کو بلوچستان میں جاری ریاستی مظالم سے آگاہ کیا۔

ماما قدیر بلوچ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف سرگرم تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین تھے اور 16 برس تک کوئٹہ اور کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپوں کی قیادت کرتے رہے۔