پاکستانی فورسز کے ہاتھوں خواتین کی جبری گمشدگیاں: بی وائی سی کا پانچ روزہ مہم چلانے کا اعلان

25

ریاستی اداروں کے ہاتھوں بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں نسل کشی کی پالیسی میں شدت کی غماز ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں میں مسلسل اضافہ اس امر کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں مزید شدت لارہی ہیں۔

تنظیم کے مطابق انتہائی تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کو بتدریج معمول بنایا جا رہا ہے، جس کے باعث بلوچ خواتین کا تحفظ شدید خطرات سے دوچار ہوچکا ہے، اس صورتحال کے منفی اثرات صرف متاثرہ خاندانوں تک محدود نہیں بلکہ پورے بلوچ سماج پر گہرے اور تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ گزشتہ چند مہینوں کے دوران متعدد بلوچ خواتین کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، جو اس منظم پالیسی کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے، یونیورسٹی کی طالبہ ماہ جبین بلوچ کو مئی 2025 میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جبکہ اس کے بعد 15 سالہ کم عمر بچی نسرینہ بلوچ کو 22 نومبر 2025 کو حب چوکی کے علاقے سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔

بی وائی سی کے مطابق اسی تسلسل میں یکم دسمبر 2025 کو فرزانہ زہری کو خضدار اسپتال جیسے عوامی مقام سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا، جبکہ بعد ازاں دالبندین کی رہائشی رحیمہ بلوچ کو 9 دسمبر 2025 کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ حالیہ دنوں 18 دسمبر 2025 کو حضرہ بلوچ، زوجہ ثناء اللہ بلوچ کو حب چوکی سے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا، اگرچہ دو دن بعد انہیں منظرِ عام پر لایا گیا، تاہم یہ واقعہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ بلوچ خواتین کی جان، عزت اور سلامتی بدستور غیر محفوظ ہے۔

اسی طرح 20 دسمبر 2025 کو حانی دلوش اور حیرالنساء کو بھی حب چوکی سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے واضح کیا ہے کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگی ایک سنگین انسانی حقوق کا مسئلہ ہے، اس مسئلے کو نظرانداز کرنا یا اس پر خاموشی اختیار کرنا بلوچ نسل کشی کی پالیسی کو مزید تقویت دینے کے مترادف ہے اور سماجی بگاڑ کو جنم دے گا، خواتین کے خلاف اس منظم اور مسلسل تشدد پر خاموشی کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔

بی وائی سی نے اعلان کیا ہے کہ بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف 22 تاریخ سے پانچ روزہ منظم آگاہی اور احتجاجی مہم کا آغاز کیا جائے گا۔

تنظیم کے مطابق اس مہم کے دوران آن لائن پٹیشنز، باضابطہ بیانات، ویڈیو پیغامات، شاعری اور تخلیقی اظہار، پوسٹرز اور ڈیجیٹل مواد، علامتی احتجاج اور ٹوئٹر اسپیس کے ذریعے قومی اور بین الاقوامی سطح پر آواز بلند کی جائے گی۔

تنظیم نے آخر میں کہا کہ اس مہم کا مقصد بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیوں کے خلاف بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کو آگاہ کرنا، عالمی برادری کی توجہ اس سنگین انسانی حقوق کے بحران کی جانب مبذول کرانا اور پاکستانی فوج کی جانب سے کیے جانے والے سنگین جرائم کو دنیا کے سامنے بے نقاب کرنا ہے۔