پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے بلوچ لاپتہ افراد کی تحریک کے مرکزی کردار اور وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے روحِ رواں ماما قدیر کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی طویل، صبر آزما اور تاریخی جدوجہد کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔
منظور پشتین نے کہا کہ برسوں قبل ماما قدیر کے بیٹے جلیل کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بعدازاں ان کی تشدد زدہ لاش ورثا کے حوالے کی گئی۔ اپنے جگر گوشے کو سپردِ خاک کرنے کے بعد ماما قدیر نے لاپتہ افراد کے لیے انصاف کی جدوجہد کا آغاز کیا اور وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے پلیٹ فارم سے ایک تاریخی احتجاجی دھرنا شروع کیا، جسے آج 6036 دن مکمل ہو چکے تھے، جو تقریباً سولہ برسوں پر محیط ہے۔
انہوں نے کہا کہ طویل علالت کے بعد آج ماما قدیر خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ پی ٹی ایم ماما قدیر کی جدوجہد کو سلام پیش کرتی ہے اور بلوچ قوم، وائس فار بلوچ میسنگ پرسنز کے کارکنان اور مرحوم کے اہلِ خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل دے۔
منظور پشتین کا کہنا تھا کہ اگرچہ ماما قدیر آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں رہے، تاہم ان کی سولہ سالہ مسلسل مزاحمتی جدوجہد اور پرامن احتجاجی دھرنے نے محکوم قوموں کے سامنے ریاستِ پاکستان کی استعمارانہ حقیقت کو مزید واضح کر دیا ہے۔ یہ جدوجہد اس سوال کو جنم دیتی ہے کہ آیا ریاست، آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن سیاسی طریقے سے حقوق مانگنے والی محکوم قوموں کو واقعی ان کے حقوق دینے کے لیے تیار ہے یا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماما قدیر کی جدوجہد ہو یا دیگر قومی و سماجی تحریکیں، یہ سب استعمار کی اصل شکل کو بے نقاب کر کے محکوم قوموں میں قومی شعور کو فروغ دے رہی ہیں۔ انہی تلخ تجربات سے حاصل ہونے والا شعور آئندہ مزاحمت میں صحیح اور غلط راستوں کی پہچان فراہم کرتا ہے، جو ہر کامیاب تحریک اور انقلاب کے لیے ناگزیر ہے۔
پی ٹی ایم سربراہ نے مزید کہا کہ بے بسی کے عالم میں قوموں کی خاموشی بے حسی کو جنم دیتی ہے، جو بالآخر قوموں کو اپنی شناخت کھونے، غلامی قبول کرنے اور دائمی جبر کا شکار بننے کی طرف لے جاتی ہے۔ اس کے برعکس، مزاحمتی آواز اور اپنے لوگوں کی ترجمانی کرنے والی جدوجہد قومی احساس کو زندہ رکھتی ہے، مظلوموں میں طاقت پیدا کرتی ہے اور پائیدار حل کی تلاش کا راستہ ہموار کرتی ہے۔
منظور پشتین نے زور دیا کہ موجودہ دور میں اٹھنے والی محکوم قوموں کی تحریکیں یقیناً کامیاب ہوں گی، بشرطیکہ وہ اپنے قومی مؤقف، فکر اور جدوجہد میں مستقل مزاجی اختیار کریں۔ وقت کے ساتھ مؤقف بدلنے والی، مفاہمتی راستے اختیار کرنے والی یا استعمار سے سمجھوتہ کرنے والی تنظیمیں کبھی بھی قوموں کو غلامی سے نجات نہیں دلا سکتیں۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ محکوم اور مستعمر قوموں کی قومی تنظیمیں اپنے وطن اور اپنے لوگوں کے خوشحال مستقبل کے لیے ہر صورت اپنی جدوجہد جاری رکھیں گی، اور یہی جدوجہد ایک دن آزادی، وقار اور باحفاظت زندگی کی بنیاد بنے گی۔
















































